حسین حقانی۔۔۔آج بھی امریکہ کا خدمت گار
پاکستان مسائل ومصائب کے نہ ختم ہو نے والے سلسلے میں عرصہ دراز سے گھرا ہوا ہے اور اس کی بد قسمتی کہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اس کے اندر ایسے ایسے کردار موجود ہیں جو اس کے مسائل کو ختم نہیں ہونے دیتے کبھی ایک اور کبھی دوسری طرح سے اس کی اساس اور اس کی نیک نامی کے خلاف سر گرم رہتے ہیں۔وہ اپنے خیالات تبدیل نہیں کر تے بلکہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور ہم انہیں بھول کر سمجھتے ہیں کہ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ اُنہیں پاکستان کے خلاف کچھ بولنا ہے یا اس کی سُبکی کرنی ہے حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے اور وہ موقع ملتے ہی اپنا چہرہ پھر دکھا دیتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی کردار حسین حقانی کا ہے جو نہ تو اپنی ذاتی زندگی میں قابل اعتبار ہیں نہ ہی سیاسی زندگی میں اور نہ ہی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ان کا صرف ایک ہی دین و ایمان ہے اور وہ ہے شہرت اور دولت۔حسین حقانی نواز شریف کے دورہء امریکہ کو غنیمت جانتے ہوئے مختلف جگہوں پر بولتے نظر آ ئے، کہیں انٹرویو دئیے ،کہیں لیکچر دیئے ،کہیں مضامین لکھے جس میں وہ امریکہ کو پارسا اور پاکستان کا خیر خواہ ثابت کرتے رہے اس کی اہمیت جتاتے رہے اور تعلقات کی خرابی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے رہے ۔ بلکہ مضمون نگار جیفر گولڈ برگ نے تو حسین حقانی کے بیان کہ ان کا ملک یعنی پاکستان دہشت گردی کی حمایت کر تا ہے کو اوبامہ کے لیے بچاؤکا ذریعہ بتایا۔جیفر گولڈ برگ نے اوبامہ نواز ملاقات سے پہلے اپنے مضمون میں لکھا کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے بعد اوبامہ نواز کے سامنے دفاعی پوزیشن پر ہونگے تا ہم وہ حسین حقانی کے مذکورہ بیان کا سہارا لے سکتے ہیں۔ اور یوں حسین حقانی کی دونوں خواہشات پوری کر دیں یعنی شہرت اور دولت۔
حسین حقانی اور ان جیسے دوسرے کردار اگر اپنی ذات کی بجائے اپنے ملک کے لیے کام کرتے اور اپنی صلاحیتیں وقف کرتے تو یقینااُن کی عزت میں اضافہ ہوتا اور قومی مسائل میں کمی بھی ہوتی ہاں ان کی ذاتی دولت کی فراوانی اثر انداز ہو سکتی تھی۔حسین حقانی جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایم اے کیا، ایک اچھا طالب علم تھا اور اُس نے بطور طالب علم لیڈر اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے شہرت پائی اور اسی زمانے میں اس کا امریکی قونصلیٹ کی لائبریری میں بہت آنا جانا رہا اور جب ایک بار طلبہ نے اس قونصلیٹ کے سامنے احتجاج کرنے کا پروگرام بنایاتو اُس نے اپنی تنظیم کا بھی ساتھ نہیں دیاشاید یہی وہ وقت تھا جب سی آئی اے نے اُس کی خدمات حاصل کر لی تھیں اور اسکے بعد وہ ہمیشہ امریکی مفادات کا تحفظ ہی کرتے ہوئے پائے گئے اور آج بھی وہ یہی فریضہ سر انجام دے رہے ہیں بلکہ امریکہ میں وہ پاکستانی سفیر کم اور امریکی سفارت زیادہ سر انجام دیتے رہے اور اب بھی امریکہ کی ہی تعریف میں رطب للسان رہتے ہیں۔ صرف یہی وفاداری ہے جو اُس نے نہیں بدلی ورنہ وہ ذاتی ،سیاسی اور قومی وفاداری بدلنے کے معاملے میں ایسی شہرت کما چکے ہیں جو کہ کم ہی کسی کے حصے میں آ ئی ہو گی۔ اپنے ہر نئے آقا کو وہ بڑی مہارت سے اپنا قائل کر کے اہم عہدہ حاصل کر لیتا ہے لیکن بہت جلد دوسری بڑی آفر پر اپنی وفاداری تبدیل بھی کر لیتا ہے۔ جماعتٖ اسلامی کے ساتھ کام کر کے اور شہرت حاصل کر کے حقانی نے اپنے مزید سیاسی فائدے کے لیے مسلم لیگ نون سے عہدوفا باندھا اور اس زمانے میں اُس نے اخلاق سے گرے ہوئے انداز میں پیپلز پارٹی کے خلاف میڈیا پر بھرپور مہم چلائی جس کو پارٹی لیڈر نواز شریف نے بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھااور اُ س سے جان چھڑا نے کی کوشش کی اور اُ سے سری لنکا میں پاکستان کا ہائی کمشنر بنا کر بھیج دیا۔ نواز حکومت کے بعد اُ س نے اپنی خدمات جنرل مشرف کو بھی پیش کیں لیکن یہاں اُسے کامیابی نہ ملی اور جب پی پی پی کی حکومت آئی تو بی بی اور نصرت بھٹو کے اخلاق تک پر وار کرنے والا یہ شخص پھر اپنی چرب زبانی کے باعث اس حکومت کا منظور نظر بن گیااور امریکہ جیسی اہم سفارت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیاجہاں وہ امریکی مفادات کا مکمل تحفظ کرتا رہا اور فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہرزہ سرائی کی بناء پر مغربی دنیا میں مقبولیت بھی حاصل کرتا رہا لیکن اس بار اُ س کا ٹکراؤ اُس سے سے بڑے ایجنٹ یعنی منصور اعجاز سے ہو گیا، اگرچہ اُس کی وفاداری بھی قابل بھروسہ نہیں اور اس پاکستانی نژاد امریکی نے پاکستان کے مفاد میں تو ہر گزنہیں لیکن معلوم نہیں اپنے کس فائدے کے لیے اُس میمو کا بھانڈا پھوڑ دیا جو حسین حقانی نے اُسے امریکی حکام تک پہنچانے کے لیے دیا تھا اور درخواست کی تھی کہ امریکی فوج پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف کاروائی کرے اور سول حکومت کو بچائے بلکہ ایٹمی اثاثوں کی نگرانی بھی اپنے ہاتھ میں لے لے یعنی بہ الفاظ دیگر پاکستان کو امریکی نو آبادی بنا دیا جائے۔ اس معاملے کے بعد حسین حقانی کی اصلیت سب کے سامنے آ گئی اور اُسے سفارت سے استعفی کے بعد پاکستان لایا گیا لیکن پھر بحفاظت نکال کر واپس امریکہ پہنچا دیا گیا ۔ ایک شخص ملکی مفاد کے خلاف مکمل طور پر ظاہر ہو چکا ہے تو حکومتٖ پاکستان اور پاکستانی میڈیا کو اُس کے خلاف نہ صرف عوام کو آ گا ہ رکھنا چاہیے بلکہ ملک،فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف اس کے پروپیگنڈے کا توڑ بھی کرنا چاہیے اگر وہ یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان دہشت گرد ی کی حمایت کرتا ہے تو اُس سے پوچھا جانا چاہیے۔ بقول حقانی کے اس سے کسی امریکی نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم نہ ہو تو اُسکی اہمیت امریکہ کے لیے اُتنی ہے جتنی پاکستان کے لیے مالدیپ کی اور جناب حقانی اس کی مکمل تائیدکرتے ہیں ۔ اُن کا یہ کہنا ہے کہ امریکہ ہمیشہ خلوص سے پاکستان کے لیے کوشش کرتا لیکن پاکستان میں ہمیشہ امریکہ مخالف جذبات اُبھارے جاتے ہیں۔ کیا وہ ڈرون حملوں،2 مئی کے واقعے یاسلالہ پر بمباری کی کوئی توجہیہ پیش کر سکتے ہیں اور کیا امریکہ کو افغانستان میں اپنی جنگ لڑنے کے لیے کسی اور راستے اور سڑک کی پیش کش کر سکتے ہیں۔اُنہیںیہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ اپنی افغان جنگ کے لیے پاکستان کا دست نگرہے لیکن پاکستان مالدیپ سے اپنی ایسی کوئی ضرورت پوری نہیں کروا رہا ہاں یہ اور بات ہے کوئی پاکستانی اس امریکی خدمت پر خوش نہیں ہے اور نہ فخر کرتا ہے۔
مسٹر حقانی تو اپنے خاندان ، اپنے سیاسی دوستوں اور نظریات بلکہ اپنے مذہب تک سے وفادار نہیں جس کا اظہار وہ مختلف حیلوں بہانوں سے کرتے ہیں تو وہ بغیر کسی وجہ و اُجرت کے کیسے امریکہ کے لیے وفاداری نبھارہا ہے۔مغرب میں آخر انہی لوگوں جو پاکستانی ہو کر پاکستان کی کسی بھی طرح سُبکی کا باعث بنتے ہیں کو کیوں اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے اوپر ہماری حکومت اور میڈیا کا رویہ کیوں سر د ہو جاتا ہے۔کیوں نہیں مغربی میڈیا اور اس شخصیت سے پوچھ گچھ ہوتی ہے اگر ہم ایسا کریں گے اور ان کا بھر پور جواب دیں گے تو شاید ہم اس قسم کے منفی پروپیگنڈہ کو کم کرسکیں، پاکستان کا تا ثر جو بین الاقوامی طور پر بگاڑا جا رہا ہے اس کو بہتر کیا جا سکے گا اور ہم بین الاقوامی سطحُ پر اپنا اور اپنے اداروں کا مقدمہ کامیابی سے لڑسکیں گے ۔یقیناپاکستان میں حسین حقانی سے زیادہ ذہن اور با صلاحیت لوگ موجود ہیں جو اس کا جواب زیادہ مدلل انداز میں دے سکتے ہیں اوراُنہیں یہ جواب قومی خدمت سمجھ کر دینا چاہیے۔
Salam, Mohtarma Naghma Habib Sahiba to bohat achchay columns likhti haen, jo watan say mohabbat say bharpoor hotay haen, Magar sachchi baat, hamaisha karhvi hoti ha, aur bahd nadan loge, jaisay Suhail, Naveed, Nazia aur Umaira khawh makhaw jaanay boojay baghaira tabsaray shurro kar daitay haen, kaya Haqqani sb nay aap ko apna propaganda secretary bharti kiya ha, iss Americi agent ko to Pakistan ka her zee shaoor jaanta ha, aur jo karnamay, iss nay Pakistan kay khilaaf kiyay haen sab iss say waqif haen, Lehaza yeh charoon Shah say ziada Shah kay wafadar bananay ki koshish nah karen.
یہ معروف صحافی محترمہ نغمہ حبیب کی تحریر ہے۔ علمی اور فکری تجزیہ نگاری ہے۔ ایک محب الوطن انسان کی غدار چہروں سے نقاب کشائی ہے۔یہ اس دور کے میر جعفر اور میر صادق کی روداد ہے۔حسین حقانی جیسے غدار وطن نے بحثیت “سفیرپاکستان”پاکستان سےغداری کرکے تاریخ کا ایک انوکھا باب مرتب کر دیا ہے۔سفارت کاری کےاعلی مقام پہ فائز ایک قابل اعتماد انسان سے سر زد”نیچ پن” کی انتہا نے خودامریکیوں کو بھی حیران کردیا ہے۔بظاہر امریکی اس غدار کی غداری کو سراہتے نظر آتے ہیں مگر اپنے مخصوس حلقوں میں اس کم بخت انسان کو گالیاں دیتے ہیں۔ دنیا کا ٩٦% میڈیا صرف ٦ کمپنیوں کی ملکیت ہے اورافسوس صدافسوس کہ یہ چھ کی چھ کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں۔یہ کمپنیاں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنےکا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ہمارے ذہنی طور پر ناپختہ کار اور سفارشی سفارت کار اور سیاستدان انہیں اس نوعیت کے کافی مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔اتنے اہم عہدوں پر اس طرح کے سستےلوگ فائزکرنا ملک کی بدنصیبی ہے۔ایسےبدبخت لوگوں کوسخت سےسخت سزاملنی چاہیےاورآئی ایس آئی کو خود امریکہ جا کرایسے لوگوں کو جہنم رسید کرناچاہیے۔پاکستان میں موجودان کی جائیدادضبط کرلینی چاہیے اوران کے والدین کو بھی گرفتار کر لینا چاہیے۔ ایک تھنک ٹینک تشکیل دینا چاہیے جو کہ ہراہم ملکی معاملے میں اپنی راۓدے سکےاورتقرری سے پہلےایسے بدبخت لوگوں کی جانچ پڑتال کرسکے
This is not it, his third wife Farah Naz Isphani, a beautiful woman, is part of the team of Mr Selig Harrison an influential jew as a moderator of Carnigee endowment in Washington and is considered a specialist on Afgahanistan by the congress (he stayed in Baluchistan for three years 1977 to 1981 after soviets invasion and has written a book on the Independance Movements of Baluchistan. She has developed close relations with many senators and congress fellows. If you recollect that during last presidential elections she was based in with Zardari (shamleless as Haqqani did not mind her staying like so) and was in one way or the other influencing the elections. She arranged Asfand Yar’s visit to USA where he was instead taken to an Army Unit and when he returned he was a changed man (perhaps Azam Hoti’s recent disclosures have some element towards it). Khalil Zalmay Zad frequently met Zardari (he was also part of the team with Farah Naz Isphani) when Boucher objected to his visits but Zalmay said that he and Zardari are old friends, friends my foot. One more point, the gold mine in Baluchistan’s management was given to a Britsh firm whose head is Mr Alexender and who happens to be the son of Mr Khalil Zalmay Zad from his European wife who is strong anti Pakistan as Mr Selig is. Both the husband and wife are out and out evil and slaves of others. Should be shot at sight with Zardari to follow. And last, it appears that Mr Suhail, Nazia and Naveed etc are one person with different names.
Madam Naghma Assalam O Alaykom, once again a very nice and informative articles. I not only agree with your article completely but also the nice comments of Maryam Samar, and then your fact reply to these idiots and traitors of Islam and Pakistan (Suhail, Nazia, Naveed and Humaria). They have commented without any knowledge of history and facts of the political and traitors doing in our beloved country. Madam I totally appreciate you and strongly condemn these four (may be many more) agents of Judeo-Chistian Alliance and Agencies working against Pakistan since as early as 1947, I had been following all the news and happenings going on in our beloved country, we know very well that our suffering are due to these agents and traitors who are within us, there are only few brave writters like you who are writing all the facts and figures in details and letting the new generation to know the facts about people and happenings. For information of all my countrymen that these Media Anchors (specially of Geo and Jung Group) are highly paid by their Western masters to exploit the nation against the country and Islam. I strongly feel that if we have people like you then we will “Inshallah” see the bright day light and all these traitors of Islam and Pakistan will go to hell. Madam I wish you good luck in your untiring and thankless mission for the beloved country and relegion.
ایک تو مجھےاس بات کی سمجھ نہیں آتی کے جب بھی کوئی کالم حقیقت پر مبنی لکھا جاتا ہے اس پر ہمیشہ یہ بے معانی سے تنقید کی جاتی ہے کہ ضرور پیسے لیئے ہوں گے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہےجولوگ پیسےلےکرلکھتے ہیں وہ حقائق کو نہ صرف چھپاتے ہیں بلکہ ان میں سے اکثراپنے مفاد کے پیش نظراپنے خیالات کو بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں،پاکستان ٹی وی چینل پرآنے والے بہت سے پڑھے لکھے صحافی اوردانشور ایک چینل سےدوسرے چینل پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں،جس کا مشاہدہ ہم اکثر کرتے ہیں۔میں تو ان تمام لکھاریوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جواپنےخیالات اورجذبات کا اظہار اس خوبی سے کرتے ہیں کہ بعض اوقات وہ صحافی بھی نہیں کر پاتے جو لکھنے کےفن میں ماہر سمجھےجاتے ہیں۔محترمہ نغمہ حبیب صاحبہ کے تمام کالم میں اپنے وطن سے محبت اور مٹی کی وہ سوندھی خوشبو جھلکتی ہے جس کو ہر سچا اورمحب وطن پاکستانی ہی محسوس کر سکتا ہے۔
جی بالکل ایسا ہی ہے۔مگر کون ہے جو امریکہ کا خدمت گار نہیں ہے۔ہمارے وزیراعظم صاحب بھی شان سے گئے تھے اورنظریں جھکائے باادب وہاں ابامہ کے سامنے کھڑے رہے۔کوئی ایک مطالبہ بھی نا منواسکے۔یہاں تک کے ڈرون حملوں تک بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی
مسٹر سہیل!میرے مضمون پر آپ نے حسین حقانی کادفاع کرنے کی کچھ ایسی عجیب کوشش کی ہے کہ جو سمجھ سے بالا تر ہے آُپ نے حقانی صاحب کے بارے کہی ہوئی کسی بات کا جواب دینے کی بجائے میری ذات اور نوائے وقت کو نشانہ بنایا ہے آپ کے لیے بھی اور دوسرے ناقدین کے لیے بھی عرض ہے کہ آُپ نوائے وقت سے معلوم کر لیجئے کہ وہ مجھے مضمون لکھنے کا کوئی معاوضہ دیتا بھی ہے یا نہیں۔آ پ کی اطلاع کے لیے عرض ہے میں کسی اخبار سے کوئی معاوضہ نہیں لیتی قومی مسائل پر لکھنا میرا مشن ہے پیشہ نہیں،بلحاظِ پیشہ میں اُستادہوں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ذخیرہِ الفاظ آپ سے زیادہ ہونے کے باوجود آپ جیسا طرزِتخاطب اختیارنہیں کرونگی کیونکہ یہ میرے پیشے اور مشن دونوں کی عزت کے خلاف ہے۔ ہاں آپ چاروں کی کچھ باتوں کا جواب دینا ضروری ہے۔ایک تو میں بتا چکی کہ میں کسی معاوضے کے لیے کے لیے نہیں لکھتی اور یہی وجہ ہے کہ کسی ایک اخبارسے منسلک نہیں ہوں اور یہ مضمون بھی جیفر گولڈ برگ کا آرٹیکل پڑھ کر میں نے لکھا ہے۔مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آُپ سب نے مضمون کو پڑھے بغیر اس پر تبصرہ فرما دیا ہے ورنہ نوید صاحب میں نے اِس میں منصور اعجاز پر کسی اعتماد کا اظہار نہیں کیابلکہ اُسکے فعل کو کسی ذاتی مفاد کی خاطر قرار دیا ہے اورحمیرا!آپ کا یہ کہنا کہ مجھ جیسے کمتر لوگ بڑی شخصیات پر لکھ کر نام کمانا چاہتے ہیں لیکن میں کہتی ہوں کہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے کا سب سے آ سان طریقہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں بیٹھ کر پاکستان،پاک فوج،آئی ایس آئی اوراسلام کے خلاف لکھیں اور حسین حقانی ایک’’ایسا ہی بڑا شخص‘‘ ہے اور اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔اور میں جب بھی ایسی شہرت چاہوں گی تو سچ مُچ کسی بڑی شخصیت پر بےجا تنقید کروں گی لیکن میر ا اللہ مجھے ایسی زیادتی سے اپنی امان میں رکھے۔اور حمیراصاحبہ اگر دایاں بازو آ پ محبِ وطن لوگوں کو کہتی ہیں تو پھر تو میں اُس میں فخر محسوس کرتی ہوں اور بشرٰی رحمان،طیبہ ضیاء ،اجمل نیازی اور میں نے پیپلز پارٹی کی پالیسیوں پر تو تنقید کی ہو گی حقانی صاحب کی طرح اخلاقی وار نہیں کئے اور میرے بارے میں تو یقین ر کھیئے کہ میں نے نواز شریف،پی پی یا کسی اور پارٹی اور طالبان ہر ایک کے اوپر تنقید بھی کی ہے لیکن صرف قومی مفاد میں اور ان کی توصیف بھی کی ہے تو قومی مفاد میں ،اور نہ تعریف کر کے کمایا ہے اور نہ تنقید کرکے ۔ہاں اپنے ضمیر کے آ گے سُر خرو رہی ہوں اور آخر میں آپ چاروں سے ایک سوال ہے کہ چاروں کا اندازِبیان اور طرزِتخاطب وتنقید حیرت انگیز طور پر ملتا جلتا ہے کیا میرا یہ اندازہ درست ہے کہ حسین حقانی کا کوئی بہت زبردست سپوٹر اسے انتہائی مقبول ثابت کرنے کی کو کوشش کر رہا مختلف نام استعمال کر کے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ
محترم سہیل اور نوید صاحب اور محترمہ حمیرا اور نازیہ صاحبہ! آپ نے حسین حقانی سے کسی نیکی کا حق ادا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور اِس نمک حلالی پرمیں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتاہوں۔لیکن یہ بہتر ہوتا کہ آپ سب نغمہ حبیب صاحبہ کے دی ہوئی معلومات کے بارے میں بات کرتے اور عوام کو سچائی سے آگاہ کرتے۔ نغمہ صاحبہ نے لکھا ہے کہ حسین حقانی نے بطور طالب علم لیڈر اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے شہرت پائی،اُس کا امریکی قونصلیٹ کی لائبریری میں بہت آنا جانا رہا،جب طلبہ نے اس قونصلیٹ کے سامنے احتجاج کرنے کا پروگرام بنایاتو اُس نے اپنی تنظیم کا بھی ساتھ نہیں دیا،امریکہ میں وہ پاکستانی سفیر کم اور امریکی سفارت زیادہ سر انجام دیتے رہے،اب بھی امریکہ کی ہی تعریف میں رطب للسان رہتے ہیں، صرف امریکی وفاداری ہی ہے جو اُس نے نہیں بدلی ورنہ وہ ذاتی ،سیاسی اور قومی وفاداری بدلنے کے معاملے میں کافی شہرت کما چکے ہیں،ہر نئے آقا کو وہ بڑی مہارت سے اپنا قائل کر کے اہم عہدہ حاصل کر لیتا ہے،سیاسی فائدے کے لیے مسلم لیگ نون سے عہدوفا باندھا اور اس زمانے میں اُس نے اخلاق سے گرے ہوئے انداز میں پیپلز پارٹی کے خلاف میڈیا پر بھرپور مہم چلائی،جب پی پی پی کی حکومت آئی تو بی بی اور نصرت بھٹو کے اخلاق تک پر وار کرنے والا یہ شخص پھر اپنی چرب زبانی کے باعث اس حکومت کا منظور نظر بن گیااور امریکہ جیسی اہم سفارت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، امریکہ میں وہ امریکی مفادات کا مکمل تحفظ کرتا رہا اور فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہرزہ سرائی کی بناء پر مغربی دنیا میں مقبولیت بھی حاصل کرتا رہا،مسٹر حقانی تو اپنے خاندان،اپنے سیاسی دوستوں اور نظریات بلکہ اپنے مذہب تک سے وفادار نہیں جس کا اظہار وہ مختلف حیلوں بہانوں سے کرتے ہیں تو وہ بغیر کسی وجہ و اُجرت کے کیسے امریکہ کے لیے وفاداری نبھارہا ہے۔ کیا یہ سب غلط ہے ، کیا حسین حقانی کی اصلیت یہ نہیں ہے اور آخر میں یہ کہ اگر پرویز مشرف آکر عدالتوں کا سامنا کر سکتا ہے تو حسین حقانی صاحب کیوں باہر بیٹھے ہے۔
Nawa.i.Waqt has once again launched a smear campaign against Hussain Haqqani. This article is pack of lies. The problem is that this news paper faced a slap after failing to frame Hussain Haqqani in a fake memo gate scandal. Failing to digest your failure, yellow journalists of Nawa.i.Jhoot are out against Hussain Haqqani with tooth and nails. But like previous propaganda campaign you are once again going to get nothing but farce and shame. Hussain Haqqani proved innocent despite harsh maligning campaign by yellow journalists like you. You can certainly earn few pennies by mudslinging him but going to get nothing else.
Please stop slandering Haqqani. He is much more patriot than people like you. He was one of the best mouths of Pakistan at US. He was the lone warrior against Jews and Indian lobby at US. At least he did something practical rather than writing lies and earning money. I understand that your profession is to malign and earn livelihood but it is quite unethical to mudsling people who served for the interests of this country. The people like you have nothing to serve for this nation rather you belittle those who are more sincere than people like you..
What a dual face and hypocrite she is? It is height of duplicity that She has started smearing campaign Against Hussain Haqqani…She herself confessed in her article published on Sunday 25th December 2011 named, “ Watan ki fikar kr Nadan” that Mansoor Ejaz is a foreign agent. Neither he is trustable nor does he have any well wishes for Pakistan. She writes that Mansoor Ejaz used to write against Pakistan army. But this article is totally opposite what she said in her previous articles. It seems that she is on the payroll of fifth columns of this society.
Quite Hilariou….People like Naghma Habib are working for right wing elements. By maligning Hussain Haqqani she is certainly settling some old grudges. Infact the problem with such writers is that most of them wanted to acquire high level portfolios but lacking the required wisdom and devoid of intellectual thoughts, they remain third class writers and then failing to tolerate it such people start throwing dirt on big names. Also Most of the writers writing for Nawa.i.Waqt like Ajmal Niazi,Tayyeba Zia Cheema and Bushra Rehma are also paid for this specific task to malign PPP stalwarts. Hussain Haqqani is big name and spitting on moon certainly comes to own face.
Thanks for a very informative piece further exposing the exposed ones.