میڈیا کے پیران کامل
پاکستان اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے ہر دور میں سیاستدانوں،حکمرانوں،حاکم جرنیلوں غرض ہر طالع آزما نے ادا کیا اور یہ ادائیگی ہمیشہ ایک دھمکی آمیز انداز میں ہوئی لیکن میرے سمیت اکثریت نے نہ صرف یہ کہ کبھی اس پر کان نہیں دھرا بلکہ اس جملے سے چڑتے ہی رہے اور پاکستان بفضلِ تعالیٰ قائم رہا ۔آج بھی یہی تاثر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کوئی ٹاک شو سنیں کسی سیاستدان سے بات کریں کسی اینکر کے خیالات زریں سنیں ہر ایک یہی تاثر دینے کی کوشش میں مبتلا ہے کہ پاکستان اپنی بقا کی جنگ میں شکست کے قریب ہے اور یہ سب کچھ ہمدردی اور محبت کی آڑ میں کیا جارہا ہے۔ ان سب لوگوں کی نیت پر شک کرنا درست نہیں ان میں سے بہت سے دلی ہمدردی،غم خواری اور فکرمندی میں بھی یہ سب کہتے،کرتے ہونگے لیکن بات وہی ہے کہ بیوقوف دوست عقلمند دشمن سے بدتر ہے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب کیسے ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے۔ پاکستان آج جس قدر بد امنی،دہشت گردی اور سازشوں سے دو چار ہے یقیناً پاکستانی عوام کا حوصلہ ہے کہ مقابلے پرتنے کھڑے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ لیڈرو ں کی پشت پناہی کے بغیر اکیلے ہی اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بظاہر شعلہ نوا میڈیا اور اس کے آتش نوا بڑے بڑے اینکر ز قوم کی خبرداری میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ لیکن کیا در حقیت یہ واقعی صرف قومی خدمت کے جذ بے سے معمور ہیں۔حصول رزق حلال ایک عبادت ہے اور بطور ذریعہ آمدن اس پیشے کو اپنانے والے لوگوں کا حق ہے کہ وہ ملک کی خیر خواہی کرتے ہوئے اور جائز ذرائع اپناتے ہوئے ایک اچھی ذاتی زندگی کے لیے جدو جہد کریں لیکن کیا یہ سب ایسا ہی کر رہے ہیں۔کیا ایمانداری سے کوئی بھی ملازمت پیشہ شخص چاہے وہ حکومتی ملازم ہو یا غیر حکومتی چند سالوں میں اتنی دولت کما سکتا ہے جتنا ہمارے میڈیا اینکرز نے کمائی۔آج سے کوئی تین سال پہلے جب میں نے اس میدان کے چند سرکردہ کھلاڑیوں سے درخواست کی کہ کسی پروگرام میں وہ بھی اپنے اثاثے ڈیکلیئر کریں تو کچھ نے میری اس ای میل کو سرے سے درخور اعتنا ہی نہ سمجھا اور کچھ نے اسے کسی مناسب وقت پر ٹال دیا اور ابھی تک انہیں وہ مناسب وقت میسر نہ آسکا۔ جبکہ اس عرصے میں وہ بے شمار ٹیکس نا دہندگان،رشوت خوروں اور بیرونی ممالک سے پیسہ لینے والے ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کر چکے ہیں ۔ پاکستان اس وقت بیک وقت کئی دشمن ایجنسیوں کی زد پر ہے۔اگر چہ کچھ عاقبت نا اندیش لوگ اسے محض محب وطن پاکستانیوں کی ایک بدگمانی سمجھتے ہیں اور بر ملا کہتے ہیں کہ ہم کیوں اپنی ہر مصیبت کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ نااہلی ہماری اپنی ہے بلاشبہ کہ نااہلی ہماری ہی ہے کیونکہ ہمارے ہی درمیان سے وہ ایسے لوگ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی تجوریاں بھرنے کی خاطر ملک و قوم کے ہر مفاد کو روندتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں یہی لوگ کبھی دہشت گردوں کی صورت میں سامنے آکر بم دھماکوں سے ارض وطن کو لرزا دیتے ہیں اور کبھی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں وطن کے گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں اور کبھی یہی لوگ حب وطن کا جامہ پہن کر لوگوں میں مایوسی کا بیج بو دیتے ہیں یہ اندر کے وہ دشمن ہیں جو اپنا کام بڑی تسلی سے کر رہے ہیں اور اس کے بدلے میں دولت اور پیسہ اپنے خزانوں میں بھر رہے ہیں مجھے ان لوگوں سے زیادہ خوف آتا ہے کیونکہ یہ آستین کے سانپ ہیں شاید کچھ لوگ میرے اس نکتہ نظر کو محض بد گمانی سمجھیں لیکن میرا نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس قدر باقاعدگی سے بیرونی ممالک کے دورے کیسے کرلیتے ہیں کیا صرف ایک نوکری سے یہ ان اخراجاتِ سفر کے متحمل ہو سکتے ہیں ۔ صرف دو تین سال کی محنت سے کیسے یہ بین الاقوامی شہرت کے حامل بن جاتے ہیں کہ ہر کانفر نس میں شرکت کرنے یہ امریکہ،یورپ اور بھارت پہنچ جاتے ہیں۔غیر ملکی سفارت خانوں میں ان کو کونسے سٹر یٹیجک نو عیت کے معاملات طے کرنے ہوتے ہیں اور و ہاں انہیں وی آئی پی پروٹو کول کیونکر دیا جاتا ہے اور جو حرکات وہاں کی جاتی ہیں اسکی جھلک بھی عوام کبھی کبھار یوٹیوب ہی پر سہی دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارے کچھ لکھاریوں کے بھارت سے باقاعدہ مصدقہ تعلقات ہیں اور آزادی اظہار کے نام پر وہ ملک اور اسکے معزز اداروں کے خلاف زہر افشائی کرتے رہتے ہیں۔ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ملک میں سب اچھا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے اور اس کچھ اچھا کو عوام الناس کے سامنے اس نظریے سے بھی نہیں لایا جاتا کہ دہشت گرد ی،بد امنی،دشمنوں کی سازشوں کے شکار عوام امید کی کوئی کرن ہی سمجھ لیں اور مستقبل کے بارے میں کسی خوش فہمی کا ہی شکار ہو جائیں۔اور سونے پر سہاگہ ہمارے سیاستدانو ں کے آئے دن کی تبدیل ہوتی وفاداریاں،تنازعات اور مخالفتیں ہیں جو ان کو ملک اور قوم کے لیے سوچنے کا موقع فراہم ہی نہیں ہونے دیتی اور سچی بات تو یہ ہے کہ سیاستدان بھی ہمارے اینکرز خواتین و حضرات کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر یوں گرجتے برستے ہیں یوں الزامات لگاتے نظر آتے ہیں گویا دو دشمن ملکوں کی فوجیں محاذ پر صف آرا ہیں۔
میں بطور ایک لکھاری میڈیا کی آزادی کے خلاف ہو ہی نہیں سکتی لیکن قومی سلامتی اور ذمہ داری اس آزادی سے کہیں اہم ہے ۔ آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں ہونا چاہے اس کے لیے امریکہ ہی کی مثال کافی ہے کہ لاکھ آزادی کے باوجود وہاں کا میڈیا اس بات کا پابند ہے کہ ملکی سلامتی کے خلاف یا کسی معمولی خطرے کے پیش نظر بھی وہ ہر خبر نشر نہیں کرتے اور کسی نہ کسی ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں اگر یہ دلیل دی جائے کہ ہمارا میڈیا نو آموز ہے اور تجرباتی دور سے گزر رہا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس آموختگی میں خدانخواستہ ہم کسی بڑے قومی نقصان سے دوچار نہ ہو جائیں اس وقت چونکہ موضوع بحث تفریحی پروگرام نہیں ورنہ یہ ہماری قومی سلامتی پر ایک اور وار اور حملہ ہے جس کے بارے میں پہلے بھی بات ہو چکی ہے اور پھر بھی کبھی ہو گی ۔ لیکن اس وقت نکتہ زیر غور یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد محب وطن اینکرز اور چینلز اس بات کا احساس کیوں نہیں کر رہے کہ وہ دشمن کے ایجنڈے میں کس قدر ممدو معاون ثابت ہو رہے ہیں ۔ یقیناً یہ بے خبری میں نہیں ہے اگر یہ سارے دیگر ملک دشمن عناصر اور سرگرمیوں سے آگاہ ہیں تو یہ اس قدر معصوم نہیں ہو سکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی دشمن کا ایک طرف سے حملہ ہے ۔ جس کے بارے میں ہمیں بحیثیت قوم انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اور ان” پیران کامل”کا محاسبہ بھی کرنا ہو گا اگر ہم تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہے ہیں تو اس کا علاج کرنے سے پہلے بیماری کی تشخیص انتہائی ضروری ہے یہ بھی سوچنا اہم ہے کہ طالبان میں عہدے بھی اسی میڈیا نے تقسیم کئے تھے ان کے انٹرویوز بھی کئے تھے آخر جہا ں تک ہماری ایجنسیاں بھی نہ پہنچتی تھیں یہ اینکر اور رپورٹر کیسے پہنچ جاتے تھے بات سوچنے کی بھی ہے اور احتیاط کی متقاضی بھی اور اگر یہ اتنے با رسوخ ہیں تو یہ اثر و رسوخ سب سے پہلے ملک کے مفاد میں استعمال ہو نا چاہیے ابھی تک اگر میڈیا کے “انکشافات ” کا کوئی ثمرہ دیکھنے کو نہیں مل رہا تو وجہ حکومت کی عدم دلچسپی اور نااہلی کے سا تھ ساتھ ان میں خلوص کی کمی بھی ہے۔
4,092
مہندس محمد اکرم خان سوری: Tuesday، 22 April 2014
ہمارا “پاکستان کے مسلم” کا سب سے گھمبیر مسئلہ ہماری قومی نسبت اور شناخت میں ہمارا ذہنی انتشار ہےجو کہ ہمارے آئین میں نصب کردہ سیکولر وائرس کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کی بنیاد اور دلیل “نظریہ پاکستان “یعنی دو قومی نظریہ ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ کلمہ توحید کی بنیاد پر انسان اپنے خود اختیاری فیصلہ کے ساتھ ایمان لانے یا نہ لانے والے دو گروہوں “مسلم” اور “غیر مسلم” یا اقوام میں تقسیم قرار پاتے ہیں۔ اس بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا جہاں پر اللہ کی تشریعی حاکمیت کا اسلامی نظام قرآن و سنت کے مطابق قائم کیا جانا تھا۔ جس کی فیصلہ کُن آ یتِ استخلاف ہے ۔ اس آیت کے مطابق مومنین کے علاوہ ہر حکومتی اقتدار، غیر اللہ یا غیر مسلم قوم کا، اللہ کا باغی اور غاصب اقتدار قرار پاتا ہے۔ اس لیے پاکستان کا موجود ہ آئین اور نظام حکومت اسلامی نہیں ہے۔ جبکہ دو قومی نظریہ کے متضاد سیکولرنظریہ ہے ۔ جو انسانوں کی وطنی اقوام میں ملٹی نیشنل(آج 192 اقوام میں) تقسیم اور تفریق کا حامل ہے۔ اسی سیکولر نظریہ کی بنیاد پر سیکولر وطنی قوم ’’پاکستان کے لوگوں‘‘ کوپاکستان کے آئین کی تدوین اور نظام حکومت کا اقتدار قائم کرنے کا فیصلہ کرکے کیا گیا ہے۔ لہٰذا پاکستان میں حاکم قوم اپنی سیکولر وطنی نسبت اور شناخت میں غیر مسلم ہے۔ پاکستان کا آئین پاکستان کے’’ مسلم‘‘ کو پاکستان کی حاکمیت قائم کرنے میں ’’ مسلم ‘‘ تسلیم نہیں کرتا بلکہ دو قومی نظریہ کی حاکمیت میں، نفی کرتے ہوئے ملٹی نیشنل نظریہ کی سیکولر وطنی قوم کی حیثیت میں مدغم کرکے بحیثیت پاکستانی قرار دیتا ہے ۔ اس لئے پر کستان کے ہر مسلم کا سب سے پہلا ٹکراؤ اپنی اولین نسبت اور شناخت کو قائم کرنے اور رکھنے میں پاکستان کے آئین سے اور اُس کے حلف بردارن سے ہے۔ کیونکہ پاکستان کے آئین میں پاکستان کے مسلم کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی مراعات اور استحقاق آئین میں دیا گیا ہے یہ استحقاق دینے والی قوم سیکولر ’’وطنیت کے لوگوں‘‘ پر مبنی پاکستانی قوم ہے۔ اس طرح غیر اللہ طاقت کے آئین کی اطاعت ، غور فرمائیں کہیں شرک تو قرار نہیں پاتا؟ جس کی وجہ سے پاکستان کی مسلم اکثریت اس شرک کے باعث اللہ کے زیرِ عتاب ہو۔ جب تک ہم حکومتی اور عالمی سطح کےغیر اللہ اِلٰہ کو پہچان کر بات کلمہ توحید پر ہر سطح اور مقام پر ایمان لائی ہوئی قوم ’’مسلم‘‘ سے بات شروع نہیں کرتے ایسے سب آرٹیکلز اور ان پر تبصرے دو رُکھے قرا رپاتے ہیں اور ہم ’’مسلم‘‘ اپنی نماز کی ہر رکعت میں اُن لوگوں کے راستے کے صراط مستقیم کی دعا کرتے ، جن پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور انعامات ہوتے رہے ہیں لیکن ہم عملی طور پر آئینی، حکومتی اور عالمی سطح کے منشور کے تحت مغضوبین اور والضالین کے راستہ پر مکمل طور پر گامزن اور اپنے ووٹوں سے اُس کی تسلیم و رضا پر قائم چل رہے ہیں۔
میڈیا پر تنقید ضرور ہونی چاہیے مگر المیہ یہ ہے کہ جس طرح ایک غریب آدمی کے خلاف ایف آئی آر تھانیدار بڑی آرام سے کاٹ دیتا ہے لیکن تھانیدار کے خلاف ایف آئی آر کیسے کاٹی جائے ۔ ۔ ۔ بالکل ایسے ہی میڈیا میں بیٹھے لوگ دوسروں کی پگڑی اچھال تے ہیں مگر ان پر سوال کس میڈیا یعنی کس اخبار یا چینل پر اٹھایا جائے ۔ ۔ ۔ میں گذشتہ 13 سال سے اخبارات میں لکھ رہا ہوں مگر جب بھی میڈیا کے خلاف لکھا ۔ ۔ ۔ کالم ۔۔۔۔ شائع نہیں کیا گیا ۔ ۔ ۔ پاکستان کے ایک سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نگار جوکہ کہانی کے انداز میں لکھنے کی شہرت رکھتے ہیں، جب انھوں نے جنگ اخبار چھوڑ کر ایک دوسرا اخبار جوائن کیا تو اپنے دو عدد کالموں میں انھوں نے پاکستان، عرب ممالک اور تمام اسلامی ممالک کی خوب خبر لی مگر کچھ ہی دنوں بعد دبئی اور اس کے سلطان کی شان میں زمین آسمان ایک کرکے کالم لکھ ڈالا ۔ ۔ ۔ میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ موصوف دبئی کے دورےمیں شیخ سلطان کے ہاں مہمان ہیں ۔ ۔ ۔
مولانا ابوالکلام آزاد کو کسی نے پانچ ہزار کا چیک بھیجا کہ حکومت نے آپ کے اخبار کو جرمانہ کیا ہے یہ آپ کے کام ائے گا ۔ ۔ ۔ مولانا نے یہ چیک واپس بھیج دیا اور لکھا کہ ۔ ۔ ۔ یہ صحافت کو کوچہ سراسر گھاٹے والا ہے۔۔۔۔ یہاں نفع نقصان نہیں، سرا سر گھاٹا ہے ۔ ۔ ۔ یہ نفع نقصان کا کاروبار نہیں ۔ ۔ ۔ جس کسی کو گھاٹے کا سودا کرنا ہو وہی اس کوچے میں ائے ۔ ۔ ۔ یہاں انعام نہیں،تعریف نہیں، طعنے سننے کو ملیں گے ۔ ۔ ۔ مولانا کے معیار سے آج کی صحافت کے موازنہ کریں تو خرابی کی بنیادی وجہ سمجھ میں آجائے گی کیوں کہ آج میڈیا پرسن کی اکثریت گھاٹا نہیں بہت سا پیسہ وہ بھی کم وقت میں کمانا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ جبکہ میڈیا کے مالکان اس دور میں کاروباری ادارے والے ہیں جنھوں نے اس میڈیا کو ایک ایسا منافع بخش کاروبار پایا ہے جس سے حکومت وقت پر دباؤ ڈال کر یا مکھن لگا کر اپنے دیگر کاروبار کو بھی وسعت دے سکتے ہیں۔
غیر ملکی بھی صحافیوں کو اپنے مقاصد کے استعمال کے لیے بہت کچھ دیتے ہیں جس کی تفصیل پھر کبھی صحیح ۔ ۔ ۔
فقط ایک دل جالا کالم نگار
بات کافی حد تک درست اور قابل توجہ ہوتے ہوئے بھی اتنی جلدی اپنے ہی ہموطنوں کے خلاف فتوی صادر کرنا دانشمندی کے خلاف علوم ہوتا ہے،یہ رویہ خود عدم برداشت کی ایک کھلی نشانی ہے،بات ضرور کیجئیے مگر تحمل سے کام لے کر کریں،ایسی حکمت اختیار کی جائے کہ انسان افراط و تفریط کا شکار نہ ہو،عام ادمی کا مزاج شدت پسند بات پہ ہی کیوں مائل ہو بردبار لکھاری اپنے لئے برد بار قاری پیدا کر سکتا ہے،جو ذرا ٹھراؤ کی صورت میں سوچ سمجھ بھی عام ادمی میں پروان چڑھا ئے،بات کر کے ایک دم اگ بھڑکا دینا توازن قائم نہیں رھنے دے گا،کہیں بھی بھڑکا ہوا معاشرہ یا بھڑکے ہوئے لوگ ہمیشہ بے سمت راہوں پہ چلتے رہتے ہیں،چلتے رہئیے،کون روکتا ہے!!!
You are right first I like them but for last few years I hate them I feel it some other enemies giving them instructions this way I work with Indians and I know about their method very well some anchors when they are talking with higher authority I feel that they want to take some internal matter for which there is no need that a common people to know about it.
Madam you are 100% correct, right from my childhood all different politician are shouting that country is in trouble, we are in emrgency state, “Mulk Bahut Nazik Daur Say Guzar Raha hay, “collection of money by parties in the name of “Qarza Utaro, Mulk Sawaro” people even gave gold, now will they tell us where this money has gone, we as a citizen understand it has gone in their respective personel account and in swiss banks , now media people are also washing not only their hands but full body with this illegal means, shounting on TV that they are great thinker and saver of Pakistan, in fact sometime I think they are either foolish friends or agents of enemies and getting lot of tax free amount to give varying and worrying statements about the deep problems of country, after listening to them it seems that Pakistan economics, finance and survival is left for few days only, but theythemself go on luxerious VIP class trips to all costly countries , I wonder how they manage and who sponsors them and why – – – – who will give the answer, about myself I will write you separate that even being so high paid salary person I remain pushed up most of the time although I go abroad with my family but I know how costly it is to spend from on pocket. I pray to Allah to give you more strenght and energy to write boldly and clearly about all types of open and hidden corruption, because with halal earning it is difficult to waste money on lavish spendings .
خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
سیانا کوّا خود ا پنے ہی جال میں پھنس گیا ہے
Your notions are really good but these anchors you are talking about were like you in the begining.
ہمیں ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔ آپ ٹھیک کہتی ہیں اکثر میڈیا والے دشمنوں کےایجنٹ معلوم ہوتے ہیں