موبائل ۔ ۔ ۔ جو بے وقار کرے
ہر معاشرہ اپنی ایک پہچان رکھتا ہے اور اس کی کچھ روایات و اقدار ہوتی ہیں۔ مسلمان ممالک میں اِن روایات و اقدار کی بنیاد اسلامی اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور اِن کا منبع قران و سنت یا ان سے اخذ شدہ اُصول جو دراصل انسان کی بھلائی اور معاشرتی فلاح و بہبودکے ضامن ہوتے ہیں لیکن آج کے اسلامی ممالک کے معاشرے بھی اپنی اصل راہ سے بے راہ ہو چکے ہیں اور انہوں نے صرف ماڈرن ازم کو ترقی سمجھ لیا ہے جس میں لباس اور اطوار سب شامل ہیں۔ دنیا نے بلاشبہ بہت ترقی کرلی ہے ہر روز نئی ایجادات یا پرانی ایجادات میں نئی اختراعیں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں اب ان کا استعمال کس طرح کیا جائے یہ ہماری صوابدید پر ہے۔ آج کی جدید ایجادات میں کمپیوٹر اور موبائل انسان پر شدت سے اثر انداز ہوئی ہیں اور درحقیقت انہوں نے معاشروں کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے، کمپیوٹرگیمز نے بچوں کوپا رکوں اور کھیل کے میدانوں سے اٹھاکر کمروں کا باسی بنا دیا لیکن موبائل نے معاشرے کو جس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے بلا شبہ اسکے فائدے بھی ہیں لیکن اس نے مسائل کو بھی جنم دیا ہے کسی بھی جگہ سے ایک دوسرے سے رابطے نے زندگی آسان کر دی ہے تجارت، بینکنگ ، تشہیری مہم ہر چیز میں موبائل کا استعمال ہو رہا ہے یہ سب بجا لیکن اِن سارے مقاصد سے زیادہ یہ اُن کاموں کے لیے استعمال ہو رہا ہے جو کسی بھی طرح ہمارے معاشرتی اقدار کے مطابق نہیں۔ اس پر بھیجے جانے والے میسجز اکثر اخلاق سے مکمل طور پر گرے ہوئے ہوتے ہیں اور سونے پر سہاگہ میڈیا پر چلنے والے بے مہار اشتہارات ہیں جس میں موبائل کا اہم ترین استعمال یہ بتایا جاتا ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں میں بازاری قسم کی محبت اس کے ذریعے بڑی آسانی سے پروان چڑھ سکتی ہے اور صرف ایک موبائل سیٹ یا سم دیکھ کر لڑکی اپنی اور اپنے خاندان کی عزت بھول کر لڑکے کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ یہ تو اشتہارات کی دنیا ہے لیکن حقیقت کی دنیا بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے وہاں بھی یہ سب کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے جس کے عملی مظاہرے اکثر نظر آتے رہتے ہیں جو کہ یقینا قابل اعتراض ہے۔
موبائل فون ہماری ضرورت سے بڑھ کر وقت کے ضیاع کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے کوئی انتہائی ضروری کام کرتے کرتے میسجز آپکی توجہ بٹا دیتے ہیں اور پھر پیغام در پیغام کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ موبائل کی یہ وبا ملک میں کچھ یوں پھیلی ہوئی ہے کہ بازار جائیں تو پھل فروش ، سبزی فروش ،ریڑھی بان سب اس سے چمٹے نظر آئیں گے۔ رنگارنگ پیکجز کا فائدہ اٹھاتے یہ لوگ گھنٹوں اس پر محو گفتگو رہتے ہیں اور گھنٹوں ضائع ہو جاتے ہیں ۔ وہ جو غم روزگار کا رونا روتے نظر آتے ہیں اور گزارا نہیں ہوتا کا نعرہ ان کی زبان پر رہتا ہے وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہتے ہیں اور توجیہہ یہ دیتے ہیں کہ پاکستان میں یہی تو ایک تفریح ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھاگتے دوڑتے صحتمندانہ کھیل کھیلتے نوجوانوں کو بیٹھا کر میسجز کی سحر میں گرفتار کر لیا ہے، مزدور مزدوری چھوڑ کر اس استعمال میں مصروف ہے اورگھر میں بچوں یا ماں باپ کے لیے کچھ لے جا سکے یا نہیں موبائل کا کارڈ خریدنا ضروری ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اٹھارہ کروڑ کے اس ملک میں تقریبا بارہ کروڑ موبائلز آخر کیا پیغام دیتے ہیں اور ہمارے کس قومی مزاج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خوشحال ممالک میں اگر موبائل فون کا استعمال کیا بھی جارہا ہے تو وہ اپنے قومی وقار کو اس نہج تک پہنچا چکے ہیں کہ جہاں وہ اس قسم کی تھوڑی بہت عیاشی برداشت کر سکتے ہیں۔ اس وقت جب قوم کو اس درجے کے کام کی ضرورت ہے کہ جس میں تھکان اتارنے کا بھی وقت نہ ہو ہم صرف اور صرف آرام کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستانی عوام کئی کئی مسائل میں گرفتار ہیں لیکن اس کے لیے یہ کہنا کہ ہم مشکل وقت کو کاٹنے کے لیے اس کا سہارا لے رہے ہیں سراسر جرم ہے اس وقت کو کاٹنے کے لیے کو ہکن کے کدال کی ضرورت ہے تبھی شیرین تک پہنچ ممکن ہے۔ یہ ملک جہاں ہر چیز مہنگی ہے اور ضروریات زندگی تک پہنچ بھی مشکل ہے وہاں آخر موبائل کو اسقدر ارزاں نرخوں پر کیوں رکھا گیا ہے اور ایک ہی میسج کو پورے ملک میں آخر کون پھیلاتا ہے کبھی کوئی واہیات لطیفہ اور کبھی کوئی غیر تصدیق شدہ بلکہ اکثر اوقات خود سے گھڑاہوا کوئی اسلامی میسج جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دیا جاتا ہے جسے آگے نہ بھیجنے پر کئی طرح کی وعیدیں سنادی جاتی ہیں آخر ان پیغامات پر بلکہ ایک پیغام پر کتنا پیسہ عوام کا برباد ہو جاتا ہے اور موبائل کمپنیوں کو کتنا منافع مل جاتا ہے جن میں سے اکثریت غیر ملکی ہیں۔ حکومت کو اگرگٹھ جوڑسے فرصت ملے تو اِن معاملات پر بھی غور کرلے اور ہم عوام کو بھی مسلسل شکایت اور بیزاری کے اظہار کے ساتھ اپنے اعمال پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ ہم کتنے گنہگار ہیں اور اپنے حالات کے کتنے ذمہ دار ۔ اور یہ بھی فیصلہ کرلیں کہ کیا ہم نے اپنے حالات بدلنے کی کوشش خود کرنی ہے یا مسلسل اپنے مسائل کے لیے دوسروں کو ذمہ دار گرد انتے گردانتے خود کو دنیا میں مزید بے وقا کرنا ہے۔
Asssalam o Alaikum we Rehmatullah, about 25 years back Dr Israr Ahmad, a famous religious of Pakistan stated in his Jumma Speech that according to a survey conducted by American think tank there were eight civilizations in the world. One is American Civilization and Seven others. Among seven others five civilizations will easily merge in the American Civilizations whereas remaining two could be a threat to the American Civilization and these civilizations are Fucious Civilization and Islamic Civilization. He further stated that to counter these civilizations Social Engineering Programme of the United Nation have been chalked out to make these civilizations as American Friendly Civilizations. Being of tender I could not understand that speech but today all Dr Israr Ahmad stated in his Jumma Speech is being observed all around and Media is playing vital role in making our Islamic Culture transformed into American Friendly Civilization. All we need to do is to hold the Quran and Sunnah of Rasool Allah (SAW) firmly or it will be too late. Everything Madam has highlighted is pre-planned and of course well planned, May Allah saves us and guides us.
Madam Naghma Assalamu-alai-kum , congratulation to you as once again you have written on a very important issue of the society . Mobile phones , compeuters and other electronic devices has its advantages and disadvantages . I am using it , my children are using it , my grand children are using it . First of all the important thing is the training of kids at home , teach them the ISLAMIC teaching , about namaz , roza , zakat & hajj/umrah , what is right and wrong in the world , the importance of wazo and 5 time prayers . the second and most important thing is the part of our sick & ignorant government (all advertisements about the charming and attractive packages of these means should be BAND ,sometimes adds shown on TV are so shameful that we cannot see with our small children , they start asking question what is this ?, I hope you got my points , some adds on billboards are also very shamefull , if these are not corrected then how can we have a future citizen with good characters , correction of these are the job of governments , not the NGO’s or any other groups , ALL THESE SPOIL THE GOOD TRAINING AND TEACHINGS AT HOME . NOW THE QUESTION IS WHO WILL PUT THE BELLS ON CAT NECK . The situations in Pakistan cities are such that we are obliged / forced to give mobile to our kids , as in emergency situations the school or the teacher are not responding to our calls , so we have to be in close touch with the kids . There is nothing bad with new inventions —- it is the use of it —– the bad packages offered and the bad adds given are responsible for the worsening situations of our society . I will blame the governments , the electronic medias and the advertising agencies for spreading corruption in our new generation .
Great Naghma g … Hamary Pakistan Ki Young Generation Tabahi Ki Tarf Ja Rahi Hay Koi Inko Roknay Wala Nahee … Parents Ko Chahiye Keh Wo Apny Bachho Pay Kari Nazar Raky … Aur Especially Larkion Ko Bilkul Bagar Zarort Mobile Use Nahee Karna Chahiye
Han Na G Iss Kay Bagir Admi Jenay Ka Tswar Hi Nai Kar Sakta
جناب ۔ یہ ایک بہت زبردست آرٹیکل شیئر کیا ہے ۔ ۔ بہت وقت سے میری بھی ذہن میں یہی باتیں ہیں لیکن!!!!! کون ہے جو میری یا اآپکی بات سنے ۔ ۔ ۔ عمل کرنا تو دور کی بات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
It is the responsiblity of the government or in some countries the relevant civil society to oversee that nothing untowards, affecting the values of their society is promoted or encouraged.In our case there is no civil society to do the job. The resposibility is therefore of the government which in the present is the most illetrate and irresposible without any shred of conscious in them. The mobile companies float packages so that the messages at almost no cost are exchanged between the youngsters at night times when the elders are asleep. Just pick up your children mobile and you may be astonished to see the filth it contains!! so at present one has to keep a constant check on the children especially an eye on their mobiles from time to time.
This reminds me of a joke, somebody asked Zardari, as to why he couldn’t control the price hike? he said what’s the difference, the prices are still the same, the difference is that 12 years back Samosa was for 1 Rupee and mobile call for 15 Rupees, now mobile call is for 1 Rupee and Samosa is for 15 Rupees. The point is that this unnecessary luxury has been made so cheap and such attractive packages have been floated for promotion of immoral activities that are guided via media. Is there no force to check this on-slaught? I was at motorway services, when my wife told me that their were dirty pictures, messages, mobile phone numbers of boys in the ladies toilet.
Thanks to the manager services who responded properly to my call, it was painted next time I was there. My question is, do we like our daughters and sisters to see such stuff? if not, why do we write such things. Moreover, it is the duty of every management to provide neat / clean environment and keep a check against such activities at public places especially for women.
پیٹ میں دانے نہیں قرض پر گزارا ہو رہا ہے مگر موبائل کی نمائش اپنی جگہ، آئے دن موبائل بدلے جارہے ہیں،خود تو اپنی جگہ بچوں کو بھی اسی چکر میں لگا دیا ہے، سٹیٹس سمبل بن گیا ہے لوگوں کا۔ ہائے اس چکر میں کتنے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
Assalam O Alaykom, I want to draw your attention about one thing more which have more drastic and horrible effects on our society.This is the availability of net which is much cheaper and in Pakistan there is no filter on web, so our esteem youngsters are using this net only to visit pron sites.Write about this terrible condition as well, please.
میڈم! آپ کی تحریر حقیقت پر مبنی ہے۔ و اقعی آج کل موبائل کی وبا نے ہماری نئی نسل کو تباہی کی طرف گامزن کردیا ہے۔ موبائل موجودہ دور کی ایک فائدہ مند ایجاد ہے لیکن افسوس ہم پاکستانی مجموعی طور پر جدید ایجادات کے مثبت پہلو ؤں کی بجائے منفی پہلوؤں پر زیادہ روبہ عمل ہوتے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلہ میں باقاعدہ قانون سازی کرنی چاہئے اور موبائل کے استعمال کے لیے عمر کی ایک قانونی حد مقرر کرنی چاہئے ورنہ اس وباء کی وجہ سے ہماری نئی نسل نہ صرف اپنا وقت ضائع کرنے میں لگی رہے گی بلکہ ہر طرح کی اخلاقی حدود پار کرکے نت نئے سماجی مسائل پیدا کرنے کا بھی سبب بنے گی۔