ثنا خوانِ تقدیس مغرب کہاں ہیں
سوات میں طالبان کے خلاف پاک فوج نے آپریشن کیا اور کچھ طالبان کی لاشیں ملیں تو انسانی حقوق کی قومی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے سب بول اٹھے اور پاک فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام دھر دیا اور یہ تحقیق بھی نہ کی گئی کہ کیا واقعی یہ سب پاک فوج کا کیا دھرا تھا بھی یا نہیں ۔ ملک میں اقلیتی برادری کے ذاتی اختلافات کے نتیجے میں ہونے والے کسی حادثے پر بھی انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھا دیا جاتا ہے آئین کی شقوں کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دے کر اسے تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر دیا جاتا ہے ۔ بین الاقوامی تو ایک طرف ہمارے اپنے انسانی حقوق کے داعی بھی چیخ چیخ کر ان معاملات کو اچھا لتے ہیںاپنی خامیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے تا کہ ان کے درست ہونے کا کم از کم امکان ہی موجود رہے لیکن ملک کی ساکھ کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے جس کا دھیان کسی کو نہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا اور اداروں کی ایسی رپورٹس کو مزید اچھال دیا جاتا ہے اور اگر انہوں نے کوئی کسر چھوڑی بھی ہو تو اسے ہمارے اپنے پورا کر دیتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ سارے انسان دوست اس وقت خاموش رہتے ہیں جب اہل مغرب کسی بہت ہی گھناونے جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جب امریکی فوجیوں کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں چار امریکی فوجی تین طالبان کی لاشوں پر پیشاب کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں یعنی انسان کی جتنی توہین کی جاسکتی ہے وہ کی گئی ہے لیکن حیرت ہے کہ نہ وہ شور اٹھا نہ وہ واویلا ہوا جو ہمارے ہاں ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات پربھی اٹھا دیا جاتا ہے ۔
امریکی فوج کے ذمے یہ پہلا جرم نہیں ہے بلکہ ایک لمبی فہرست ہے جو اس فوج سے منسوب ہے ویت نام سے لیکر عراق اور عراق سے لیکر افغانستان تک ہزاروں ایسی کہانیاں ہیں جو انسانیت سوز ہیں ۔وہی امریکہ جو نہ صرف دنیا کو انسانی حقوق کے تحفظ کا درس دیتا ہے بلکہ ان حقوق کی آڑلے کر ملکوں کے ملک تاخت و تاراج کر دیتا ہے دراصل یہ ایک طریقہ ہے ایک راستہ ہے کہ کیسے دوسرے ممالک میں اپنی فوج داخل کی جا سکے اور وہاں کے وسائل پر قبضہ کیا جا سکے ۔ اسے پاکستان ، افغانستان اور عرب ممالک میں دلچسپی اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہیں۔ اس لیے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہماری بھلائی کا کوئی منصوبہ لے کر آئیں گے سراسر حماقت ہے ،ہاں زمانہ قدیم میں فاتح افواج جو بربریت کرتی تھیں امریکی فوج نے وہ وطیرہ اور دور ابھی تک نہیں چھوڑا لیکن صرف بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اُسے چھوٹ دی جارہی ہے۔ طالبان سے نظر یاتی اختلاف اپنی جگہ، لیکن دنیا کا کوئی قانون لاش کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا اور جہاں ہمارے ملک میں معمولی معمولی باتوں پر واویلا کیا جاتا ہے، اُنہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے اور ہماری فوج، آئی ایس آئی اور دیگر قومی اداروں کو بہت بڑا مجرم بنا دیا جاتا ہے وہیں ان لوگوںکے جرائم سے چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ اگر چہ مسلمان فوج ہونے کی حیثیت سے کوئی پاکستانی فوجی ایسا کام کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس واقعے پر ایمنسٹی انٹر نیشنل چیخا نہ ہیومن رائٹس واچ، نہ ایشیا واچ اور نہ ہی پاکستانی ادارہ حقوق انسانی کو اعتراض ہوا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے ادارے یہ سب کچھ روک سکتے ہیں لیکن کم از کم وہ اس امر کو دنیا کے سامنے تو لا سکتے ہیں کہ وہ امریکہ جو پاکستان کو شدت پسند سمجھتا ہے خود سب سے بڑا شدت پسند اور دہشت گرد ہے لیکن ہوا ایسا کہ نہ صرف عالمی تنظیمیں بلکہ خود کو پاکستان میں انسانیت کے بڑے علمبردار اور ٹھیکیدار کہنے والی شخصیات عاصمہ جہانگیر، علی دایان اور ماروی سرمد جو اپنے اداروں کے خلاف بولتے تھکتے نہیں یہ سب کچھ دیکھ کر بھی چپ رہے بلکہ نامی گرامی اینکرز اور سیاسی شخصیات بھی خاموش رہیں۔ امریکی فوجیوں کی یہ حرکت نہ صرف انسانی اقدار کے خلاف ہے بلکہ فوجی اصولوں کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے جو دنیا کے کسی قانون میں بھی جائز نہیں۔یہ بہت اچھا موقع تھا کہ انسان اور انسانیت کے یہ ہمدرد بولتے اور امریکہ اور اہل مغر ب کو ان کا اصلی چہرہ دکھاتے اُنہیں بتاتے کہ اسلام اپنے کسی ماننے والے کی ایسی حرکت پر اُسے سخت سزا کی وعید سناتا ہے پھر وہ اسلام اور مسلمانوں کو تنگ نظر اور شدت پسند کیسے سمجھتے ہیں اور کیسے اپنی انسانیت دوستی کا چرچا کرتے ہیں لیکن حسب معمول اس واقعے پر چپ سادھ لی گئی۔ میری اِن انسانیت کے علمبرداروں سے گزارش ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکنا بہت اچھی بات ہے اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھنا بھی بہت احسن ہے لیکن دوسروں کی کوتاہیوں سے صرف اپنے مفاد کے لیے صرف ِنظر کرنا اور مظالم پر چپ رہنا ظالم کی مدد کرنے کے مترادف ہے ۔ ہمیشہ مغرب کی انسانیت دوستی پر دادوتحسین کے ڈونگر ے برسانے والے اِن لوگوں کو اِس واقعے پر کم از کم اظہار خیال ہی کر لینا چاہیے تھا ۔امریکہ سے اِن فوجیوں کو سزا دینے کا مطالبہ کر لینا چاہیے تھا اور ان پر یہ بھی واضح کر دینا چاہیے تھا کہ اسلام کو بد نام کرنے کی بجائے خود اپنے آپ کو درست کریں ،وہ دنیا کے ٹھیکدار نہیں، دنیا کے کونے کونے میں امن کے نام پر فساد برپا کرنے کی بجائے خود کو ظلم کرنے سے روکیں تو امن خود بخود قائم ہوجائے گا۔
نُومید نہ ہو اِن سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کُوش تو ہے لیکن بے ذوق نہیں راہی
مایوسی گناہ ہے، قومی یکجہتی کے لحاظ سے حالات خراب ضرور ہیں لیکن ٹھیک ہو سکتے ہیں
نہیں ہو نا اُمید نو میدی زوالِ علمِ عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
Main Apnay Bhai Ghulam Ahmed Rao Key Bat Say Mutafiq Hon. Hum Sazish Sazish Ka Dhong Kartay Hain Iss Liyan K Hum Khud Iss Laiq Nahin Hain Ur Hum Kiya Kisi Ko Day Saktay Hain Jab Hum Khud Aapsa Main Dasto Gryban Hain Koi Haq Nahin Hamay Kisi Ko Kuch Kehnay K Isalm Ko Hum Nay Apnay Maqsad K Liyan Istimal Kiya Hay. Main Daway Say Kehta Hoon Aaj USA Apna Visa Open Kar Yay 10 Din Main Yeh Mulk Khali Ho Jaye Ga. Bunyadi Tour Pay Hum Bayiman Ur Jhotay Log Hain Bachon K Doodah Say Lay K Gosht Ur Dal Pani Tak Main Milawat Kartay Hain Hum. Hamri Tarbyat Khtam Ho Gai Hai Hum Pasti Main Gir Chukay Hain
ایک بات سمجھنے کی ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہم ہمیشہ دُوھرا میعار فکر رکھتے ہیں۔ ہم ڈالر بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ کی بربادی بھی ۔ یورپ اور امریکہ ہیں جھوٹ بول کر ہم ہی سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں اور عیسائیوں کی زکوت دھ یکی سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ کیا کسی مسلمان کے شانِ شایان یہ پات ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر قادیانی بن کر کسی غیر مسلم ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرے اور پھر ان پر تنقید بھی کرے۔
Madam Assalam O Alaykom, I was away from my base for over two weeks, now back in action, I have read your article and all the thirteen comments / views, I as a Pakistani and Muslim agree with most of these, your article is excellent and fact provoking. Yes, not only our corrupt politicians and bureaucrats for past 65 years are the agents of America and other Muslim Enemy agencies but also our so called liberated electronic media and champions of human rights are working for these Anti Islamic agencies. We need a revolution by the oppressed people, as you and most of the comments writer have stated in these troubled area, I have also visited almost all big and small towns / villages of my beloved country, the people are very good every where but they are oppressed, all the development funds and money taken in the name of Baluchistan, Sindh , Punjab, NWFP are distributed and enjoyed by the Sardars and Vadeeras, nothing is filter down for the welfare of our suffering and dedicated Pakistanis, in East Pakistan where I stayed till the fall of Dakha, no Bengali was directly against Pakistan, what they wanted was their basic human rights, but they were humiliated and what not, so we have to pay the penalty, now in what ever left over Pakistan the voice of common person must be heard (not of Sardars and Vaderas), basic human needs must be provided, the price of Gas, Petrol , Electricity and other commodities should be checked and fixed to the minimum level so that it should be in reach of common person, the lavish expenses of ministers, governors, PM and president should be down to ZERO in including the army generals, load shedding must be checked and we should get rid of this nonsense, as per my information there is no shortage of any thing, the problems are of the shortage of Will Power and desire to solve the issues, BIG and influential people are involved in all these mismanagementsm. Madam, it is not only Baluchistan or Swat where the people are suffering, but people are oppressed and suffering in all parts of Pakistan, but the electronic media is only giving those news which will please their Western masters. MAY ALLH HELP US AND PAKISTANI PATRIOTIC PEOPLE TO SOLVE THE PROBLEMS AND GET RID OF THESE CORRUPT —- politicians, generals, media and so called human rights activist! Ameen.
نجیم شاہ صاحب اور شہیراللہ خان صاحب کی آراء کا احترام کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سوات کے حالات کا موازنہ وزیرستان وغیرہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ سوات ایک سِٹلڈ ایریا ہے اور اس کی سرحدیں کسی بیرون ملک سے نہیں ملتیں۔ میں سوات کا پیدائشی باشندہ ہوں اور سوات میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں میرے سامنے شروع ہوئیں، عروج پر پہنچیں اور پھر ان کا خاتمہ کردیا گیا۔ سوات میں کوئی طالبان نہیں تھے اور نہ ہی ملا فضل اللہ کا تعلق ابتداء میں تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔ سوات میں جب عسکریت پسندی کو دانستہ طور پر فروغ دیا جا رہا تھا تو اس وقت ہم کچھ صحافی اور علاقے کے سمجھ بوجھ والے لوگ مقامی انتظامیہ کو بار بار کہتے رہے تھے کہ سوات میں اگر ملا فضل اللہ کی سرگرمیوں کو نہیں روکا گیا تو اس کا انجام بہت بھیانک نکلے گا۔ اس وقت کے کمشنر سید جاوید خود ملا فضل اللہ کے پاس جایا کرتا تھا اور اس کے پیچھے جمعہ کی نماز بھی پڑھتا تھا۔ اب ایک کمشنر خود اپنی مرضی سے ایسا کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے اسے اوپر سے ایسا کرنے کی ہدایات ملتی تھیں۔ اس وقت کے ایک مقامی ایس ایچ او نے انتظامیہ کے اعلیٰ حکام سے کہا کہ اگر اسے فری ہینڈ دیا جائے تو وہ ایک گھنٹہ کے اندر ملا فضل اللہ کو ساتھیوں سمیت حوالات میں بند کرسکتا ہے لیکن اسے سختی سے ہدایت دی گئی کہ ان معاملات میں ٹانگ نہ اڑاؤ اور بعد میں اس کا تبادلہ کسی دوسری جگہ کردیا گیا۔ سوات کے داخلی دروازہ لنڈاکی چیک پوسٹ پر اسلحہ سے ایک بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑا گیا تھا جسے بعد میں نامعلوم حکام کی ہدایت پر بہ حفاظت ملا فضل اللہ کے مرکز مام ڈھیرئی پہنچا دیا گیا تھا۔ میرا چوں کہ صحافت سے تعلق ہے اس لیے ان باتوں کا مجھے زیادہ علم ہے۔ ہمیں آف دی ریکارڈ امن قائم کرنے والے ایک افسر نے بتایا تھا کہ یہ سب کچھ پاکستان کی بقاء کے لیے کیا جا رہا ہے اور آخر میں اہل سوات کو اس کا صلہ ملے گا۔ ایک حاضر سروس میجر نے اُس وقت ہمیں یہ بتایا تھا کہ سوات میں حالات کبھی بھی ہمارے قابو سے باہر نہیں نکلے تھے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ سوات میں کوئی بیرون ہاتھ ملوث نہیں تھا۔ آپ لوگ پاکستان کے جھوٹے اور متعصب میڈیا کی باتوں پر نہ جائیں۔سوات میں حتمی آپریشن سے پہلے میڈیا کو اعتماد میں لیا گیا تھا کہ جو کچھ انھیں بتایا جائے صرف اسی کو نشر اور شائع کیا جائے۔ آپ لوگوں کو کچھ معلوم نہیں کہ سوات میں اصل میں ہوا کیا ہے، اسے دانستہ طور پر پردۂ اخفا میں رکھا گیا ہے۔ وہاں کوئی طالب والب نہیں تھا اور نہ ہی وہاں کوئی جنگ جو تھے۔ بہت کم تعداد میں مقامی لوگ تھے باقی اسی ملک کے نامعلوم لوگ تھے جسے ہم خود دیکھتے تھے۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جو میں یہاں لکھ نہیں سکتا لیکن اگر آپ لوگوں کی غلط فہمی دور نہیں ہوتی تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ ہم ایسے منافقوں کے بیچ زندگی گزار رہے ہیں جو ملک کی بقاء اور سلامتی کے نام پر ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
اگر بلوچستا ن میں گنتی کے چند لوگ شرپسند ہیں تو پھر ہماری اتنی بڑی اور منظم فوج کس کام کی۔ ہماری اتنی ڈھیر ساری خفیہ ایجنسیاں کس مرض کی دوا ہیں۔ وہ گنتی کے ان چند لوگوں کا خاتمہ کیوں نہیں کرسکتیں۔ فوج اور ان ایجنسیوں کو اتنی بڑی تن خواہیں اور مراعات کس لیے ملتی ہیں۔ ملک کے دفاع کی ذمہ داری ان ہی کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ باقی رہی بلوچستان میں را، موساد اور خاد وغیرہ جیسی ملک دشمن ایجنسیوں کی تو یہ بھی ہمارے سکیورٹی اداروں کی نااہلی ہے کہ وہ ان کا علاج کیوں نہیں کرسکتے۔ ان کی مذموم سرگرمیوں کا تدارک کیوں نہیں کرسکتے۔ دنیا بھر کی ایجنسیوں کو صرف ہمارے ہی ملک میں کیوں پناگاہیں میسر آتی ہیں۔
یہ بھی واضح کردوں کہ بلوچ سرداروں کو کس نے سر چڑھا رکھا تھا، انھیں ہماری مقتدر قوتوں نے اتنی اہمیت دی تھی۔ وہ بلوچ عوام کو نظر انداز کرکے ان سرداروں کو خریدتی اور نوازتی رہی ہیں۔ اگر وہ ان سرداروں کی بہ جائے براہِ راست عوام کی محرومیاں دور کرتیں تو ایسا کرنے سے حکومت کو کون روک سکتا تھا لیکن ہماری مقتدرقوتیں ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے آسان راستے تلاش کرتی ہیں۔ اگر بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کو ان کے حقوق ملتے اور انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کی جاتیں تو آج بلوچستان میں کوئی بغاوت برپا نہ ہوتی۔
براہِ کرم میں میرے نقطۂ نظر کو منفی انداز میں نہ لیں۔ مجھے اپنے ملک کے مسلسل بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر بہت دکھ اور پریشانی ہوتی ہے اور میں جو کچھ لکھتا ہوں، حب الوطنی کے جذبے کے تحت لکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنا خوب صورت اور ہر طرح کی سہولتوں اور وسائل سے مالامال ملک دیا ہے لیکن اسے حکم رانوں اور بعض طالع آزما فوجی جرنیلوں نے ہمارے لیے دوزخ بنا کر رکھا ہے۔ باقی دُنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی اور ہم ابھی تک اپنے انتہائی بنیادی مسائل سے پیچھا نہیں چھڑا سکیں۔ جب تک ہمارے ملک میں ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک وطن عزیز کے حالات درست نہیں ہوسکتے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے سیاست دان نا اہل ہیں لیکن ہمارے فوجی حکم رانوں نے 30 سال سے زائد حکم رانی کرکے کون سا تیر مارا ہے بلکہ مارشل لائی حکومتوں میں وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سیاست دان نا اہل ضرور ہیں لیکن کسی بھی دور میں انھیں ان کے مینڈیٹ کے مطابق فری ہینڈ نہیں دیا گیا ہے۔ ملک کے حوالے سے بنیادی فیصلے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی کرتی رہی ہے۔ ملک کے قومی بجٹ کا 70 فی صد سے زیادہ حصہ فوج کو دیا جاتا ہے اور امریکا سے انھیں آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈجو امداد ملتی ہے، وہ الگ ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے جو صنعتی اور تجارتی ادارے ہیں، ان کے انکم کا پارلیمنٹ کوئی علم نہیں۔ ہم روایتی اسلحہ میں خود کفیل ہیں اور ہمارا بنایا ہوا اسلحہ بہت سے ممالک میں درآمد کیا جاتا ہے، اس سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ کہاں جاتا ہے؟ اس کے باوجود ہماری قومی خود مختاری اور ملک کی سرحدوں کے تقدس کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ہماری فوج محب وطن ہے اور ہماری ایجنسیاں واقعی اس مقصد کے لیے ہیں کہ وہ ملک دشمن سازشوں کو ناکام بنا دیں لیکن امریکا کی جنگ میں پھنس کر ہم نے اپنی ساکھ برباد کردی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ وہ ہمیں امریکا، بھارت اور یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھے اور وطن اور اہل وطن کو امن، عافیت اور خوش حالی دے۔ آمین
فضل ربی صاحب نے بلوچستان کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اس حوالے سے میں اُن کی کافی باتوں سے متفق ہوں اور ان باتوں کو اپنے ایک سابقہ آرٹیکل میں بیان بھی کر چکا ہوں کہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال مشرقی پاکستان کی اُس وقت کی صورتحال سے ملتی جلتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں کم از کم آخر تک پاکستان دوست عناصر موجود تھے اور پاکستان کے خلاف قائدانہ سطح پر کوئی بیان نہیں دیا جاتا تھا جبکہ بلوچستان کے حالات انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ گیارہ اگست کو یوم آزادی اور چودہ اگست کو یوم سیاہ منانا، سوائے چند ایک عمارتوں کے قومی پرچم لہرانے اور قومی ترانہ پڑھنے پر پابندی اور اس طرح کے دیگر واقعات مسئلے کی حساسیت اور حالات کی سنگینی کا پتہ دیتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کی ایک وجہ اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم تھی اور وہی صورتحال آج چھوٹے صوبوں کو درپیش ہے۔ مشرقی پاکستان میں پٹ سن، کاغذ وغیرہ تیار ہوتا تھا جس کی قیمت مغربی پاکستان میں تھوڑی اور مشرقی پاکستان میں زیادہ ہوتی تھی۔ ایک پنسل جو مشرقی پاکستان میں اگر پانچ آنے میں ملتی تھی وہی مغربی پاکستان میں ایک آنے میں عام دستیاب ہوتی تھی۔ بلوچستان سے پورے پاکستان کو گیس ملتی ہے لیکن بلوچستان میں نہیں۔ کوئٹہ میں جو سی این جی اسٹیشن ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
قابل احترام فضل ربی صاحب کی ان باتوں سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارے حکمران ہمیشہ بلوچستان کے سرداروں کو نوازنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ عوام کی طرف توجہ کم ہی دیتے ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان میں بھی آج پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے ویسی ہی بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح انیس سو اکہتر میں مکتی باہنی کو استعمال کرکے بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میں یہاں یہ بھی بتا دوں کہ کوئی ملک کسی کا دوست نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کی دوستی مفادات پر مبنی ہوتی ہے اور اس وقت بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بھارت، ایران اور امریکہ تینوں کا عمل دخل ہے اور بہت سے مقامی سردار ان طاقتوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ایران کے تعلقات پاکستان کی نسبت بھارت سے اچھے ہیں وہیں گوادر کے معاملے میں امریکا بھی ایران کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ گوادر کی تعمیر سے ایران کے بحری ٹریفک کنٹرول اور اس کے مفادات پر ضرب پڑی ہے کیونکہ اس طرف گزرنے والی تمام ٹریفک کو گوادر سب سے بہترین مقام پڑتا ہے۔ ایران نے اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایرانی بلوچستان میں بھارت کے تعاون سے ایک نئی بندرگاہ تعمیر کی ہے۔ بھارت نہ صرف بندرگاہ تعمیر کرکے دے رہا ہے بلکہ چار سو پچاس کلو میٹر سے زائد کی ایک روڈ بھی تعمیر کر رہاہے جو اس بدرگاہ کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک سے ملائے گی۔ مزید برآں ایران کے ساتھ تعاون کے نتیجے میں بھارت چین کے گوادر میں اثرات کو بھی کم کر سکتا ہے جس کے نتائج بلوچستان میں پھوٹنے والی بغاوت سے بخوبی لگائے جا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں بغاوت کو ہَوا دینے والے خود ساختہ لیڈر ملک دشمنی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اگر بالفرض ان سے یہ پوچھ لیا جائے کہ آپ بلوچستان میں امریکہ، بھارت اور ایران کے کردار کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی توپوں کا رخ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف موڑ کر بات گول کر دیتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے انٹیلی جنس اداروں کا کام دشمن کی چالوں، خفیہ سازشوں، ملک کو درپیش خطرات کو قبل از وقت بے نقاب کرنا ہوتا ہے اور یہی کردار آئی ایس آئی اور ایم آئی کا بھی ہے لیکن ملک دشمن عناصر اپنے ہی اداروں کو بدنام کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ملک کی حفاظت میں ہماری مدد کرے اور پاکستان کو میر جعفروں اور میر صادقوں سے بچائے۔ یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کون میر جعفر اور کون میر صادق ہے بلکہ محب وطن پاکستانی انہیں خود اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
جہاں تک سوات اور قبائلی علاقوں کا تعلق ہے تو میں یہاں فضل ربی صاحب کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اس بار ے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان میں غیر ملکی ایجنٹ گھس چکے ہیں ۔ طالبان اس وقت دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہیں جن میں ایک گروپ تحریک الاسلامی طالبان اور دوسرا تحریک طالبان پاکستان کہلاتا ہے۔ تحریک الاسلامی طالبان کی قیادت عمر مجاہد کر رہے ہیں اور اس کا نظریہ یہ ہے کہ جہاد صرف افغانستان میں قابض غیر ملکی افواج کے خلاف ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گروپ افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اس کے برعکس تحریک طالبان پاکستان کا نظریہ یہ ہے کہ جس طرح افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف جہاد جائز ہے عین اسی طرح پاکستان کے اندر بھی جہاد جائز ہے۔ طالبان کا یہ گروپ پاکستان کے اندر خودکش حملوں اور دیگر جرائم میں ملوث ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان پر یہ الزام ہے کہ اسے امریکا سمیت کئی دیگر غیر ملکی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جن کا مقصد پاکستان میں بدامنی پیدا کرکے ملک کو دولخت کرنا شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف حکومتِ پاکستان طالبان کے اس گروپ پر پابندی عائد کر چکی ہے بلکہ ملا عمر مجاہد کی تحریک الاسلامی طالبان بھی اس گروپ سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے۔
محترم فضل ربی راہی صاحب!
بصداحترام نغمہ حبیب صاحبہ کے مضمون پر آپ کے چندتحفظات کے جوابات دینا ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھتا ہوں جو امید ہے کہ آپ کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔
بلوچستان میں کوئی بغاوت نہیں ہے گنتی کے چند لوگوں نے بلوچوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے جو بلوچستان کو اپنی جاگیر اور ادھر کے غریب عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں اور فوج نے ہر طرح کوشش کی اور کر رہے ہیں کہ ادھر تعلیم عام ہو ، روزگار کے مواقع ملیں اور صحت کی بنیادی ضروریات بھی میسر ہوں۔ ثبوت کے طور پر چمالانگ میں ترقیاتی کام ، سوئی میں کیڈٹ کالج کا قیام اور بلوچی نوجوانوں کی فوج میں بھرتی سر فہرست ہیں۔
بلوچستان میں سوئی کے مقام پر جو گیس نکلی ہے اور وہاں کے لوگوں کو نہ ملنے کی بات ہے تو سوئی کے سرداروں سے پوچھ لیں کہ وہ کیوں نہیں دیتے کیا کبھی آپ نے کسی بلوچ سردار کی زبان سے یہ بات سنی ہے کہ سوئی میں رہنے والوں کو گیس مہیا کی جائے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہاں کے لوگوں میں احساس محرومی ہے تو یہ بات کرنے والے میرے خیال میں کسی حد تک حق بجا نب ہیں لیکن آج اس برائے نام جمہوری دور میں بلوچستان نہیں پورا پاکستان احساس محرومی کا شکار ہے اور ہمارے سیاستدان جو آج بلوچوں سے پہلی کی گئی غلطیوں کی معافی مانگتے ہیں تو جناب یہ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید اُن غلطیوں میں ان کاقصور نہیں۔
رہی بات سوات کی، تو بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ سوات جیسے محبِ وطن لوگوں میں سے بھی را، سی آئی اے اورموساد کو کارندے مل گئے۔ سوات میں خفیہ ہاتھ سے آپ کی مراد اگر اپنے قومی سلامتی کے ادارے ہیں تو یہ سراسر نا انصافی ہے۔ وہاں پر خفیہ ہاتھ اگرہے تو بھارت ، امریکہ ، اسرائیل اور افغانستان کا ہے۔
Dear Fazal e Rabe Rahi Sahib!
I have read your comments and as we live in a democratic society so you can have your own opinion but I completely disagree with you. If you have proof then you should present it but all those thousands of people who fought in SAWAT and many gave their lives also, they definately did not fight for American Aid. No one wants to destroy own people and why would agencies will get hold of their own people? No one wants to give his life and take money? Situation is not as you have described.
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہوسکتی ہے۔ میں میڈم نغمہ حبیب صاحبہ، نوید شہزاد صاحب اور نجیم شاہ صاحب کی آراء کا احترام کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بلوچستان میں آخر ریاست سے بغاوت کی تحریک کیوں چل رہی ہے؟ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکم ران بلوچستان میں سرداروں کو نوازنے کی بجائے وہاں کے پس ماندہ عوام کے لیے تعلیم، روزگار، صحت اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن بناتے تو آج بلوچستان میں محرومی کی آگ نہیں سلگ رہی ہوتی، وہاں آباد کاروں کا قتل عام جاری نہ ھوتا، وہاں آزادی کی تحریک نہ چل رہی ہوتی لیکن ہماری حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہاں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے عوام کو اپنے وسائل اور حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اس لیے وہاں پہ اتنا شدید ردِ عمل پیدا ہوا ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثال میں یہ دوں گا کہ بلوچستان میں سوئی کے مقام پر جو گیس دریافت ہوئی ہے اور جس سے پورا ملک مستفید ہو رہا ہے، یہی گیس وہاں کے لوگوں کو اٹھارہ سال کے بعد فراہم کی گئی تھی۔ آج تمام سیاست دان اور ملک کے سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ یہ اعتراف برملا طور پر کرتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں سے زیادتیاں ہوئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی نااہلیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے بھارت، اسرائیل اور امریکا کو موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ ہمارے حکم ران اور اسٹیبلشمنٹ امریکا کی کتنی تابع دار ہے۔ اگر ہم ان سے ڈالر بٹورتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے احکام بھی ماننا پڑیں گے۔ اور آخر ہم اتنے نااہل کیوں ہیں کہ بھارت، اسرائیل، امریکا اور اس کے حواریوں کی سازش کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
باقی رہی بات سوات کی تو عرض ہے کہ میں سوات کا رہنے والا ہوں اور سوات میں جعلی طالبان کی تحریک کے دوران میں خود نہ صرف پورا عرصہ وہاں پہ موجود رہا بلکہ ایک صحافی اور کالم نگار کی حیثیت سے ان معاملات پر لکھتا بھی رہا اور اس موضوع پر حال ہی میں میری کتاب ’’اور سوات جلتا رہا‘‘ بھی شائع ہوئی ہے جس میں اصل حقائق پوری صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔ وہاں کوئی غیرملکی دہشت گرد نہیں تھے، وہاں کوئی غیرملکی اسلحہ برآمد نہیں ہوا ہے، وہاں کوئی غیرملکی کرنسی برآمد نہیں ہوئی ہے اور وہاں پر میڈیا میں اب تک کوئی ایسا شخص پیش نہیں کیا جاسکا ہے جو بغیر ختنہ کا ہو۔ سوات میں ’’خفیہ ہاتھ‘‘ نے اپنے معلوم اور نامعلوم مقاصد کے حصول کے لیے یہ سارا ڈرامہ رچا رکھا تھا اور وہاں چند مقامی لوگ جیسے ملا فضل اللہ، مسلم خان، شاہ دوران اور محمود خان وغیرہ اس خفیہ ہاتھ کے آلہ کار بن گئے تھے اور انھوں نے سوات کے مقامی نوجوانوں کو ورغلا کر انھیں ’’طالبان‘‘ بنایا تھا۔ آپریشن کے دوران ان ’’اصل مہروں‘‘ کو تو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا لیکن ان لوگوں کو بے دردی سے وحشیانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا جو یا تو ان مہروں کے حامی تھے یا ان کے ورغلانے پر اس معاملے میں شامل ہوئے تھے اور یا ان کے خوف سے مقامی لوگوں نے انھیں چائے یا کھانا دیا تھا۔
فوجی آپریشن کے بعد بھی وہاں کے معصوم اور بے گناہ عوام کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ تاریخِ سوات کا ایک الم ناک باب بن گیا ہے۔ آپ جیسے ’’محب وطن‘‘ لوگ اہل سوات کے دکھوں او ر المیوں کا اندازہ نہیں لگاسکتے کہ ان پر جعلی طالبانائزیشن مسلط کرکے انھیں کن عذابوں سے دوچار کر دیا گیا۔ اس کا اندازہ صرف وہی لوگ لگاسکتے ہیں جو اس طرح کی دہشت گردی سے خو د گزریں اور انھیں اپنے ملک میں اپنے پرامن علاقہ سے دربدر ہونا پڑیں اور وہ بھی اس حالت میں کہ انھیں اپنے گھربار صرف ایک گھنٹہ کے نوٹس پر چھوڑنا پڑیں جس کے دوران لاکھوں بوڑھے، بچوں، بیماروں اور خواتین کو بیس کلومیٹر سے زائد فاصلہ پیدل طے کرنا پڑے۔ بعض لوگ اپنے محفوظ علاقوں میں اپنے پرتعیش گھروں میں بیٹھ کر’’حب الوطنی‘‘ کے جذبے سے سرشار ہوکر ان معاملات پر اپنے ’’ماہرانہ‘‘ تجزیوں سے اہل وطن کو نوازتے رہتے ہیں لیکن اگر انھیں سوات یا دہشت گردی کے شکار دوسرے پختون علاقوں میں کچھ دن گزارنا پڑیں تو انھیں پتہ چلے گا کہ ہمارے محافظ کتنے پانی میں ہیں اور ان کا اپنے عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔ میں مختصر الفاظ میں یہ کہوں گا کہ ہمارے محافظوں نے ہمیں مفتوحہ لوگ سمجھ رکھا تھا اور ہمارے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جا رہا تھا جیسے ہم دشمن ملک کے باسی ہوں اور ہمارے محافظوں نے ہمیں ایک حقیقی جنگ کی صورت میں فتح کیا ہوا ہو۔ پاکستان کے میڈیا نے سوات کے معاملہ میں نہایت تعصب سے کام لیا ہے، وہاں کے اصل حقائق سے اہل وطن کو بے خبر رکھا گیا تھا اور آئی ایس پی آر جو پریس ریلیز جاری کرتی صرف اسی پر اکتفا کیا جاتا۔ اس موقع پر میں مزید کچھ زیادہ نہیں کہ سکتا کہ یہ ملک کے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے خلاف ہوگا۔
آپ لوگ بلوچستان میں بہت پہلے رہے ہیں، آپ آج کل کے حالات سے باخبر نہیں ہیں بلکہ اب تو اہل وطن کو بلوچستان کی مخدوش صورت حال سے دانستہ طور پر بے خبر رکھا جا رہا ہے۔ جس طرح مشرقی پاکستان میں ’’محبت کا زمزم بہ رہا ہے‘‘ اور سب کچھ ٹھیک ہے جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے اور جب قوم کو غیر متوقع طور پر مشرقی پاکستان کی علاحدگی کی ’’نوید‘‘ سنائی گئی تو پوری قوم کو جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ بی بی سی جب مشرقی پاکستان کی علاحدگی کی خبر نشر کر رہا تھا تو ہماری آئی ایس پی آر اسے جھوٹا قرار دے رہا تھا۔ بالکل اسی طرح اب ہمیں بلوچستان کے اصل حقائق سے بے خبر رکھا جا رہا ہے۔
میں ایک نہایت محب وطن پاکستانی شہری ہوں۔ مجھے اپنے ملک اور اپنی جنم بھومی سوات سے عشق ہے۔ ہمارے ملک میں ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے نام پر جو کچھ ہو رہاہے دراصل یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے لیے اپنے عوام کو قربانی کا بکرا بنانا یا امریکا کے خلاف پراکسی وار میں ملک وقوم کو دہشت گردی کا شکار بنانا کسی بھی طرح دانش مندی یا حب الوطنی نہیں۔ ہمیں پڑوسی ممالک میں مداخلت کی بہ جائے اپنے ملک کے اندرونی حالات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ اپنے عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کو محفوظ بنانا چاہئے۔ اپنے ملک سے غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور بے انصافی کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی سبیل کرنی چاہئے۔ آئے روز بجلی، گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی روک تھام کرنی چاہئے۔ گڈ گورننس پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ عوام کے اصل مسائل حل کرنے کے لیے فوری طور پر طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنا چاہئے اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا چاہئے۔ محض ڈالروں کے لیے دوسروں کی جنگ اپنی سرحدوں کے اندر لانے سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ہم مزید مسائل کی دل دل میں پھنستے چلے جائیں گے۔ جب تک ہم اپنی خامیوں کو تسلیم نہیں کریں گے، جب تک ہم اپنے حکم رانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی نااہلی کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، اس وقت تک وطن عزیز میں اصلاحِ احوال کا عمل شروع نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم امریکا کی نام نہاد عالمی دہشت گردی کی جنگ سے خود کو علاحدہ کریں اور ہمارے حکم ران اور فوج صرف اور صرف اپنے ملک اور عوام کی ترقی و خوش حالی کو اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنالیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں محب وطن اور اہل لیڈر شپ سے نوازے ۔ آمین
Dear Fazal e Rabbi Sahib ,
You have read the article and forwarded your opinion that shows your concern about Pakistan. But being a Pakistani and living in Pakistan I would request you to first go to Swat, meet the people of Swat and ask them what role PAK ARMY has played in bringing smiles on their faces and what sacrifices PAK ARMY has paid in doing so.
Now as Madam Naghma Habib has already said that she had been living in Balochistan for about ten years, I have also lived there with my family for a short period of time and conditions / circumstances are totally different than your perceptions. Its all “WADERA SYSTEM”. People are considered, made and treated like slaves and neither the Government of Pakistan nor the Supreme Court is worried.
I would also say that no one in PAK Army is that insane that they will take money and bomb our own people, its again a misperception and hype created by the media, if we they are so then they would have taken money from America on the incident of Salala Check Post.
Dear Sir, no one wants to be slaved by America but then as already said by Madam Naghma Habib why the political government do not takes stand and why Supreme Court does not take notice of all these?
میں محترمہ نغمہ حبیب صاحبہ کی رائے سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں لیکن بہتر ہوتا کہ وہ طالبان کی بجائے ”ظالمان“ کا الفاظ استعمال کرتیں کیونکہ طالبان اور ظالمان میں بہت فرق ہے۔ اصلی طالبان وہ ہیں جو افغانستان میں غیر ملکی افواج کے خلاف جہاد میں برسرپیکار ہیں جبکہ ظالمان وہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں جو اپنے ہی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرکے اپنے ہی مذہب کو بدنام کر رہے ہیں۔ آج جن لوگوں کو دنیا طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام مدرسہ کے طلباءنہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ قاتل ، ڈاکو وغیرہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے وقت نہ صرف وہاں امن قائم تھا بلکہ پاکستان بھی محفوظ تھا۔ اس وقت نہ افغانستان اور نہ پاکستان میں کوئی خودکش حملے ہوتے تھے۔ اگر طالبان کا مقصد بے گناہ مسلمانوں کا خون کرنا ہوتا تو یہ کام اپنے دور حکومت میں آسانی سے کر سکتے تھے لیکن انہوں نے افغانستان میں امن قائم کیا۔ پاکستان میں دہشت گردی اس وقت شروع ہوئی جب ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ افغانستان میں کرزئی حکومت بننے کے ساتھ کئی طالبان نے پاکستانی قبائلی علاقوں کا رخ کیا اور ان کے ساتھ طالبان کے روپ میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ بھی آنا شروع ہو گئے۔ ان لوگوں نے یہاں آ کر ایک طرف تو طالبان کا لبادہ اوڑھ لیا جبکہ دوسری طرف بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی پسماندہ قوموں کو پاکستانی کی سالمیت کے خلاف ورغلانا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کو یہاں پیش قدمی کا موقع مل گیا کیونکہ اسلام دشمن عناصر یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی قوم کو توڑنا ہو تو سب سے پہلے ان کے دین پر حملہ کرو۔ کئی طالبان پاکستان کے اندر ہی امریکی ایجنٹ بنے جو امریکہ سے امداد لے کر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ ان باغی طالبان کو اصلی طالبان ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ یہ جرائم پیشہ لوگ طالبان کے روپ میں بچوں کو اغواءکرکے اپنے کیمپوں میں تربیت دیتے ہیں تاکہ انہیں خودکش حملوں میں استعمال کر سکیں۔ سوات آپریشن کے دوران طالبان کے ایک کیمپ سے ایسے دوسو کے قریب لڑکے برآمد ہوئے جن کو خودکش حملوں کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف چھ سال تھی۔ تربیت کے دوران ان بچوں پر سخت نفسیاتی دباﺅ ڈالا گیا تھا اور انہیں یقین تھا کہ خودکش حملے کے بعد وہ سیدھے ”بہشت“ میں چلے جائیں گے۔ ان بچوں کی اس قدر برین واشنگ کی گئی تھی کہ یہ راستے کی رکاوٹ بننے پر والدین کو بھی قتل کرنے کو تیار تھے۔ ایک اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو جہاں دیگر حقوق حاصل ہیں وہاں اُن کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ حاصل ہے پھر یہ کون لوگ ہیں جو صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی بلیک واٹر، شراب کے اڈوں، جواءخانوں، ناچ گانے کی محفلوں وغیرہ کو نشانہ کیوں نہیں بنایا۔ جولائی 2009ءمیں سوات اور فاٹا میں گرفتار طالبان سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکا کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ تک ملے ہیں۔ 2نومبر 2009ءکو پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن کے دوران بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیر استعمال بھارتی لٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا۔ اس کے علاوہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے دوران طالبان کے روپ میں ایسے لوگ بھی پکڑے گئے جن کی ختنہ تک نہیں ہوئی تھی۔ جو آگ افغانستان کے پہاڑوں پر بھڑکائی گئی تھی وہ خیبرپختونخواہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی پنجاب کے میدانوں کا رُخ کر چکی ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ نہ ملک میں امان ہے نہ دنیا میں کہیں اور ہماری کوئی عزت ہے۔ ایئرپورٹوں پر ہمیں لائن سے الگ کھڑا کرلیا جاتا ہے، کتوں سے سونگھایا جاتا ہے، تلاشی کی خاطر کپڑے تک اُتار لیئے جاتے ہیں لیکن ہمیں پھر بھی شرم نہیں آتی۔ پھر بھی ہم نہیں سوچتے کہ اپنے گھر کو سدھاریں کہ اس ذلت سے نجات ملے۔ ہمیں اس وقت قوت حکمت و تدبر کے ذریعے معاملات کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے بغاوتوں کے دور میں حکومت کو سنبھالا اور معاملات کو اس طرح حل کیا کہ ان کا چھوٹا سا عہد پورے بنوامیہ کے دورِ حکومت میں واحد دور نظر آتا ہے جو ہر قسم کی بغاوتوں سے خالی رہا۔
محترم فضل ربی راہی بھائی!
میرے لکھے ہوئے مضمون کو غور سے پڑھنے اور اس پر تفصیلی تبصرہ کرنے کا شکریہ۔ لیکن چند ایک باتوں میں آپ نے شاید کھلے دل سے اظہار خیال نہیں کیا ہے۔ مثلاآرمی اور ائیرفورس کئی بار کہہ چکی ہیں کہ حکومت حکم دے تو ڈرون گرا دینگے لیکن حکومت اور پارلیمنٹ خاموش ہے، جس بندے نے ڈرون حملوں کے متعلق معا ہدے کئے تھے اس کے خلاف حکومت مقدمہ کیوں درج نہیں کرلیتی اور اگر حکومت نہیں کرتی تو سپریم کورٹ کیوں از خود نوٹس نہیں لے لیتا، ملک میں پچھلے دس سالوں میں دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزاوں کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے اور رہائی کے لیے وہی پرانا فقرہ یعنی ناکافی ثبوت کی بنا پر بری کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں میں نے زندگی کے دس سال گزارے ہیں ادھر بلوچوں کا قتل عام نہیں پنجابیوں اور باقی لوگوں کا ہورہا ہے، بسوں سے اتار کر لائن میں کھڑا کرکے پنجابیوں کو گولیاں مار دی جاتی ہے، خواتین کو زندہ دفن کردیا جاتا ہے اور ان کے سردار غریبوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ میں نے زندگی کا ایک اچھا خاصہ وقت سوات میں بھی گزارا ہے۔ سوات کے لوگ پُرامن اور وطن سے محبت کرنے والے ہیں۔ ابھی بھی کافی سارے کلاس فیلوز سے میرا رابطہ ہے۔ طالبان نے را، موساد، سی آئی اے اور رام سے ڈالروں کے ساتھ ساتھ سوات کی خواتین سے سونا زبردستی لیا اور جبری بھرتی بھی کی۔ اگر نہیں تو راتوں رات یہ اتنے امیرکیسے ہو گئے۔ اُن کو شریعت کی الف بے بھی نہیں معلوم۔ صرف داڑھی رکھنے اور بال لمبے کرنے سے آدمی مسلمان نہیں ہو جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر طالبان کو دعا ئے قنوت اور نماز جنازہ پڑھنا بھی نہیں آتا۔ رہی بات تین ہزار بے گناہ لوگوں کی جوسوات میں ہلاک ہوئے تو بھائی یہ تعداد پورے پاکستان میں تیس ہزار سے زیادہ ہے اورسا ت ہزار فوجی اس کے علاوہ ہیں۔ میں پشتون ہوں اور جانتی ہوں کہ پٹھانوں کی ایک خوبی خواتین کا احترام ہے مگر طالبان نے ان کا بھی لحاظ نہیں کیا اور اسلام کے ساتھ ساتھ پشتون قوم کو بھی بدنام کیا۔ میرا صرف طالبان سے ایک سوال ہے کہ یہ اپنے ذرائع آمدن تبا دیں جن سے انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں تنخوادار فوج رکھی ہے، ان کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور اسلحہ بھی دیاجاتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ میرے تبصرے کو کھلے دل سے ایک ذمہ دار پاکستانی بن کر پڑھیں گے اورمیری تحاریرپر پُر مغز تجزیے بھی کرتے رہیں گے۔
میڈم! آپ درست فرماتی ہیں کہ ہمارے ملک میں جب انسانی حقوق کی معمولی سی خلاف ورزی ہوتی ہے تو بنیادی انسانی حقوق کے علم بردار تنظیمیں چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں اور مغربی میڈیا ہمارے خلاف اپنے بغض و عداوت کا کھلم کھلا اظہار کرنے لگتا ہے۔ ویتنام، عراق، افغانستان اور دنیا کے بہت سے ممالک میں امریکا نے جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے، وہ نہ صرف عالمی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ بیشتر جگہوں میں وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن دنیا میں مروجہ قانون یہ ہے کہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس۔ اقوام متحدہ عملا امریکا کی لونڈی بن چکی ہیں اور پوری مہذب دنیا امریکا کے جنگی جرائم پر مہر بہ لب ہے۔
جہاں تک سوات، وزیرستان اور بلوچستان کا تعلق ہے، وہاں واقعتا بنیادی انسانی حقوق کی نہ صرف خلاف ورزی ہو رہی ہے بلکہ انسانیت کی تذلیل بھی کی جا رہی ہے۔ وزیرستان پر ڈرون حملے ہماری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی رضامندی سے ہو رہے ہیں جن میں بے گناہ اہل وطن مر رہے ہیں۔ ہمارے حساس ادارے اپنے لوگوں کو اٹھاتے ہیں اور انھیں وحشیانہ انداز میں قتل کرتے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچوں کا اجتماعی قتل عام جاری ہے۔ سوات میں حالیہ شورش کے دوران نام نہاد طالبان کے علاوہ تین ہزار سے زائد بے گناہ اور معصوم شہری فوج کی بم باری اور مارٹر گولوں سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سیکڑوں املاک کو بغیر کسی وجہ کے تباہ و برباد کیا جاچکا ہے۔ سوات میں جو مشتبہ ’’طالبان‘‘ فوج کی قید میں ہیں، ان میں وقتاً فوقتاً بعض ’’طالبان‘‘ دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوتے رہتے ہیں اور بعض قیدیوں کو ’’جھڑپوں‘‘ میں ہلاک کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکا اگر افغانستان، عراق یا پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو مارتا ہے یا افغانستان کے حقیقی طالبان کی لاشوں کی بے حرمتی کرتا ہے تو ہمیں اس کا شکوہ اس لیے نہیں کرنا چاہئے کہ یہ سب کچھ ہمارا دشمن کر رہا ہے جس سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ لیکن پاکستان میں جب ہماری اپنی فوج اپنے لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرتی ہے، اپنے ہی علاقوں پر بم باری کرتی ہے یا بعض علاقوں میں ’’طالبان‘‘ کے نام سے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو ہمیں اس پر دُکھ ہوتا ہے کہ ہمارے محافظ امریکا کی خوش نودی یا اس کے خلاف پراکسی وار کے لیے اپنے ہی لو گوں کو کیوں قربان کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے بھی صرف پختونوں ہی کو کیوں قربانی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بھی فرنٹیرکور کے اہل کار ہلاک ہو رہے ہیں، سوات میں بھی مقامی پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے جوان ہلاک ہو رہے تھے اور وزیرستان میں بھی پختون سکیورٹی اہل کار اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے نام پر کام آ رہے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کے دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والی ریگولر آرمی کا کوئی اہل کار ’’شرپسندوں‘‘ کی گولیوں کا نشانہ بنا ہو۔
امریکا اگر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اپنے ملک میں نہیں بلکہ دشمن ملکوں میں ایسا کر رہا ہے جب کہ ہمارے سکیورٹی ادارے نہ صرف امریکی مقاصد کے لیے اپنے ہم وطنوں کو اس کے حوالے کرتے رہتے ہیں بلکہ امریکی ڈالروں کو ہضم کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کو آگ اور خون میں بھی نہلاتے رہتے ہیں۔ عوام کے خون پسینے پر پلنے والے جب اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں گے تو وہ قدرت کے انتقام سے نہیں بچ سکیں گے۔ نہ صرف ملک کے اندر ان کے خلاف عوام کے دلوں میں لاوا اُبلتا رہے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
جب تک ہم امریکی غلامی کے چنگل سے نجات حاصل نہیں کریں گے، اس کے ڈالروں کو لات نہیں ماریں گے اور اپنے ملک کی سرحدوں کی پامالی نہیں روکیں گے، اس وقت تک نہ ہم ایک ساؤرین ملک کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ہمارے ملک میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کا سلسلہ رُک سکتا ہے۔ہمیں اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے ملک و قوم کی سلامتی، ترقی اور خوش حالی کو ممکن بنانا ہوگا۔ ہماری سکیورٹی اداروں کا اوّلین مقصد اپنے ملک اور عوام کا تحفظ ہونا چاہئے نہ کہ امریکی جنگ اور نام نہاد اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے نام پر اپنے عوام کو قربانی کا بکرا بنانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور ہمیں محب وطن اور عوام دوست سیاسی اور عسکری قیادت عطا فرمائے ۔ آمین
نہایت ہی جامع اور منفرد تحریر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سرفہرست ہے۔ دنیا میں عالمی انسانی حقوق کا سب سے پہلا نظریہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ دین اسلام سے زیادہ حقوق انسانی کی بات اور کوئی نہیں کرتا۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو یہ ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سب سے آگے ہے جس نے ویت نام، عراق، افغانستان، لیبیا اور اب پاکستان میں بے شمار جگہوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پر بھی امریکہ اقوام متحدہ کے عالمی مشن کے مطابق کام نہیں کرتا اور اس کی پالیسی میں انسانی حقوق اور مساوات کا رنگ نظر نہیں آتا۔
غلامانِ مغرب سےکیا لینا دینا۔ اگر یہ لوگ یہ نہ کریں تو ’روزی روزگار’ کا کیا بنےگا بھلا۔ مسلمان کہلاتے ہیں مسلمانوں کے رجسٹر میں نام ہے تو اسلام اور اسلامی تہذیب کا نام لے کر تو اس کی مخالفت یا اسے برا بھلا کہنے سےشاید شرم آتی ہے اس لیے یہی حربہ ان کےنزدیک کارگر ہے۔
ان کی دیانت قدم قدم پر جھلکتی ہے طالبان کے نام سے ایک ڈرامہ کھیلا گیا ایک عورت کو سنگسار کرتے دکھایا گیا اور خوب خوب پرچار کیا گیا۔ جب عقدہ کھلا تو میڈیا اور ’انسانی حقوق کے ٹھیکے داروں‘ کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہم تو پچھلے چوسٹھ سال سے یہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم آپ اپنا کام کرتی رہیں اور بس جہاں تک ان کا تعلق ہے تو قرآن کی زبان میں انکی آنکھیں ہیں مگر یہ دیکھتے نہیں‘ دماغ ہے مگر سوچتےنہیں‘ حقیقت کشائی کرتی جائیے دوسرے سبق لیں گے۔ انشا اللہ
Very true and well written article. America portrays its image as highly civilized nation and supporter of human rights whereas America itself is the biggest violator of the same. Now the problem again is the role of media, where is the media now and all those so called patriot anchor persons who are earning millions by speaking against Pakistan and its Armed Forces but do not find enough courage to speak against reality. And where is Asma Jahangir? not a single statement as yet.
آپ نے بجا فرمایا۔ ظلم کی انتہا ہے کہ سب کچھ آپ کرتے ہیں اور بدنام پاکستان کو کیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پوچھیں بھی کس سے؟ جس کا کھاتے ہیں اسکے آگے سر کیسے اٹھائیں؟ ان سے احتجاج کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ گویا غیرت نام کی کوئی چیز ان میں نہیں رہی اور ان سے بھی بڑھ کر امریکی ہیں جنہوں نے انسانیت کی تذلیل کا ریکارد توڑ دیا ہے۔ شرم آنی چاہیئے ان امریکی فوجیوں کو جو دنیا میں اپنی نیک نامی کا ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتے لیکن انکی کرتوتیں ایسی ہیں جن کی بدولت وہ انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں۔