میمو گیٹ! تنقید بجا لیکن ۔ ۔ ۔
میمو گیٹ نے تقریباً تین ماہ سے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس سازش کا انکشاف ہونے پر قوم واقعی ششد ر رہ گئی کیونکہ اس میں بڑے بڑے نام شامل تھے اور پھر یہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو بھی اس کے فیصلے کا انتظار کرنے کی بجائے ہر طرف سے تبصروں اور تجزیوں کی ز د میں رہا۔ اظہار رائے کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس لیے اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا لیکن اگر اس اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ملک اور اس کے اداروں کو نقصان پہنچایا جائے تو پھر اسے رک جانا چاہیئے۔ لیکن معاف کیجئے گا ہمارا الیکٹرانک میڈیا اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس وقت کچھ زیادہ مثبت کردار ادا نہیں کر رہا۔ ایشوز کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور پھر اداروں کے اوپر باقاعدہ حملہ آور ہونا کسی بھی طرح درست نہیں۔ ہمارے ٹاک شوز تو باقاعدہ کسی دنگل کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اینکرز خواتین و حضرات پروگراموں کے دوران اپنی رائے مہمانوں پرٹھونسنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور باقاعدہ فریق بن جاتے ہیں کیونکہ ہم میں سے کوئی اختلاف رائے برداشت کرنے کاروادار نہیں ہے۔ ہمارے کچھ اینکرپرسنز تو ملکی حالات کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے ہر حربہ آزماتے ہیں اور سچ بات یہ ہے کہ ان کی پہنچ ہے بھی بہت دور تک ۔یہ طالبان کے ان ان لیڈروں تک سے ملاقات کر آتے تھے جہاں تک انٹیلیجنس ایجینسیاں بھی نہیں پہنچ پاتی تھیں۔یہ مشکوک بات بھی ہوتی تھی اور حیران کن بھی کہ آخر یہ لوگ وہاں تک پہنچ کیسے جاتے ہیں کہ جلتے ہیں جبرائیل کے پر جس مقام پر اور پھر اپنے اداروں کو ہدف تنقید بنا دیتے ہیں اور یہ اعزاز الیکٹرانک میڈیا کے چند چنیدہ اینکرز پرسنز کو ہی حاصل ہوتا ہے کیونکہ ایک عام اور سچا صحافی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں سے اتنا وقت ہی نہیں نکال پاتا کہ وہ ایک سراغرساں بن سکے وہ تو غم روز گار میں غلطاں و پیچاں اپنے شعبے کے ان لوگوں کے ٹھاٹ باٹ ہی دیکھتا رہتا ہے جن کی چڑیائیں انہیں خبریں لا لا کر دیتی ہیں اور وہ ان کی طرح در در کی ٹھوکریں کھائے بغیر تخت طائوس پر بیٹھے رہتے ہیں اور کچھ زیادہ سال پہلے کی بات بھی نہیں جب یہ لوگ انہی کی طرح موٹر سائیکل پر گھوم گھوم کر خبریں اکھٹی کر تے تھے لیکن اب ان کے کارندے اور چڑیائیں ان کیلئے چراغ کے جن کی طرح ہر خدمت سر انجام دیتے ہیں اور یہ بڑی بڑی ٹپس اور عظیم الشان انعامات اور معاوضے پاتے ہیں حیرت کی بات ہے کہ آخرکیسے صرف یہ چند ہی لوگ اتنے با صلاحیت ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی صلاحیتوں کو بڑے سوچے سمجھے طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہوکبھی حکومت کے خلاف اور کبھی دوسرے اداروں کے خلاف۔ آج کل انہی میز بانانِ گرامی میں سے کچھ اسی طرح چڑیوں اور ذرائع سے خبریں حاصل کرتے ہیں اور فوج کے خلاف حیرت انگیز حد تک قابل اعتراض بیانات دے رہے ہیں۔ اگرچہ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا پورا میڈیا ایسا نہیں کر رہا لیکن ایک گروہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بیانات کو ہی میڈیا کی معراج سمجھے ہوئے ہے مجھے بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ اس سب کچھ کے قومی اور بین الاقوامی منفی اثرات قوم اور ملک پر پڑیں گے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک مضبوط اور مستحکم فوج ہی ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے ۔ سپریم کورٹ نے ابھی میمو کیس کو صرف قابل سماعت گردانا ہے لیکن یہ سارے انتہائی با خبر لوگ فوج پر برس پڑے ہیں جبکہ عدالت اور ججوں کو بھی ناقابل اعتبار قرار دے دیا گیا جن کو جب تک مرضی کے فیصلے آتے رہے تو فقیدالمثال قرار دیا جاتا تھا۔ حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دوران سماعت افواج پاکستان کی عقل کو جس طرح ٹخنوں میں قرار دیا وہ آپ یا تو بچوں سے کہہ سکتے ہیں یا ذاتی بغض و عناد نکالنے کیلئے یہ الفاظ ادا کر سکتے ہیں اور یہ رویہ بھی درست نہیں کہ خود کو ہی عقل کل سمجھ کر دوسروں کی تضحیک کی جائے۔ لیکن ان خاتون کا رویہ بھی فوج کے بارے میں منصور اعجاز سے کچھ کم نہیںاور جس طرح وہ کمرئہ عدالت سے نکلنے کے بعد عدالتی کاروائی پر بیانات دیتی ہیں وہ سراسر عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ خاتون جو کہ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کہلاتی ہیں ہر معاملے میں ان کے معیار مختلف اور اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں جہاں وہ توہین رسالت کے قانون کو قابل اعتراض سمجھتی ہیں وہاں وہ ایک ارب مسلمانوں کی دل آزاری کو انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں سمجھتی نہ اس نے ’’ڈرا محمد‘‘ کے قبیح ڈرامے پر ایک لفظ کہا نہ ٹیر ی جونز کی حرکت پر ۔ بال ٹھاکرے سے وہ اسی کے مقدس رنگ یعنی نارنجی کپڑوں میں بڑی مریدیت سے ملا قات کرتی ہیں لیکن اپنے جرنیل اس کی نظر میں قابل سزا ہیں جو اس ملک کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اگر بات اصولوں پر اختلاف کی ہوتی تو اور بات تھی کیونکہ ہماری فوج اور جرنیل کوئی شجر ممنوعہ نہیں جن کے بارے میں کچھ نہ کہا جا سکے لیکن یہ صاحبہ اور ہمارے چند ایک اینکرز صرف اور صرف مخالفت کو ہی اپنی مقبولیت کا زینہ سمجھتے ہوئے بڑے خضوع و خشوع سے اختلاف میں مصروف رہتے ہیں اور اسے اپنی بہادری گردانتے ہیں جبکہ بڑی بہادری یہ بھی ہے کہ اپنے مخالف کی اچھی بات کی بھی تعریف کر دی جائے لیکن یہ بڑے دل گردے کی با ت ہے۔ دراصل شہرت اور دولت وہ جنس گراں مایہ ہیں جنہیں یہ ہر صورت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ اسے ہر صورت اسے لپیٹنے میں مصروف رہتے ہیں،چلیئے اس پر بھی اعتراض نہیں لیکن اس کیلئے جو ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں وہ ضرور قابل اعتراض اور قابل غور ہیں۔
ہمارے کچھ عقل کل قسم کے اینکرز جو اپنے پروگرام بھی پاکستان سے کرنا پسند نہیں کرتے ہیں باہر بیٹھ کر ملکی حالات پر تبصرے کرتے ہیں اور بمعہ اہل و عیال قومی اداروں کی مٹی پلید کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ایسے ہی ایک بیٹی ماریہ سیٹھی نے وال سٹریٹ جرنل میں پاک فوج کے خلاف ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا Pakistan Army is the Real Obsticle to Peace اور اسی پر انہیں شہرت اور دولت دونوں سے نوازا گیا۔ کمال اس عام سے مضمون کا نہیں بلکہ اس کے موضوع کا تھا جو مغرب میں پسندیدہ ترین ہے اور اس پسندیدگی کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ واحد اسلامی ایٹمی قوت کے خلاف ہے کیونکہ مغرب طاقت کو صرف اپنا حق سمجھتا ہے اور مغرب کی چاکری کو ہمارا فرض۔
ہمارے اینکرز اور محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ سے بصد ادب یہ درخواست ہے کہ میں آپ جیسی کوئی عقل کل نہیں ہوں اور نہ ہی بااثر لیکن ایک دردمند پاکستانی کی حیثیت سے آپ سے یہ درخواست ضرور ہے کہ اگر آپ کی عقل آپ کو اسامہ بن لادن تک پہنچا سکتی ہے ،بقول آپ کے اقتدار کے ایوانوں کے تمام فیصلے آپ کے پاس پہنچائے جاتے ہیں ،آپ اسی عقل سے سالہاسال پہلے پیشن گوئیاں کر سکتے ہیں ،آپ ہی بادشاہ گر ہیں اور انہیں سارے ہنروں کے ذریعے آپ آج دولت میں کھیل رہے ہیں تو یہ ذہن میں رکھیئے کہ یہ ملک ہے تو آپ کے یہ سارے ہنر ہیں ،نام ہے،شہرت ہے اگر یہ نہ رہا تو کچھ نہ رہے گا ۔فوج پر تنقید کریں اور عدالت کو یہ احسان بھی یاد دلائیں کہ اس کی بحالی کیلئے آپ نے ہی تو سب کچھ کیا تھا عام وکیل اور عام صحافی کی تو آپ حفاظت پر مامور تھے کہ انہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ ادارے جن کی شکست و ریخت کیلئے آپ کوشاں ہیں یہی آپ کی بقا کی بھی ضمانت ہیں ۔ یہ رہیں گے تو آپ آزادہیں، خدانخواستہ یہ نہ رہے تو غلام اور غلام غلام ہی ہوتا ہے مالک نہیں بنتا آپ نے امن کی بڑی آشائیں باندھیں بڑی پتنگیں اڑائیں لیکن بھارت میں آج بھی مسلمان ذلیل و خوار ہے اور سب سے کم شرح خواندگی ان کی حالت زارکا منہ بولتا ثبوت ہے ایسا صرف اس لیے ہے کیونکہ وہ آزاد نہیں، اپنے ملک پر فخر کریں اداروں پر تنقید گناہ نہیں بلکہ اگر مثبت ہو تو فائدہ ہی فائدہ ہے لیکن تنقید ملکی مفاد کی خاطر کریں، انہیں سیدھے راستے پر لگانے کیلئے کریں اپنی ذاتی شہرت اور بے اندازہ دولت میں اضافے کیلئے نہیں۔
Asma Jahangir is a low calibre woman. Has base intelligence and nothing to write home about. She finds Human Rights only when there is a masih name in front, but forgets about Kashmiris, Bosnians, Afghanis etc
میں ڈررہاہوکہ نا اہل رہبری کےسبب
رواں دواں نہ رہا کارواں تو کیا ہو گا
(سردار عبدا لرّب نشتر)
پاکستان کا اليکٹرونک ميڈيا ابھی بچہ ہے اور ہماری نازک مزاجی آدھا سچ بھی ہضم نہيں کر پاتی پاکستان کے تمام ادارے بشمول آرمی ايسا گروہ روز اول سے سرگرم عمل ہے جو اس مملکت کو ذاتی جاگير سمجھتا ہے کيا کبھی ہم نے ان چند افراد پر مشتمل گروہ پر انگلی اٹھانے سے پہلے سوچا کے تعداد ميں کس کا پلا بھاری ہے ايس تو نہيں کہ اپنی معصوميت ميں ہم خود ہی اس گروہ کے آلہ کار بن کر اقبال کے خواب کے ساتھ تماشا کر رہے ہيں معذرت کے ساتھ ميں محترمہ نغمہ کی اس رآئے سے بھی اتفاق نہيں کرتا کہ اس ہزاہ سرآئی سے افواج پاکستان کی بے توقيری ہو رہی ہيں البتہ اس بات پر متفق ہوں کے چند ”وطن پرست” جرنلوں کی اسلام آباد سے محبت پر شک کا اظہار کيا جا رہا ہے جن افراد کے نام لے کر آپ نے تنقيد کی ہے يہ تو آٹے ميں نمک کے برابر بھی نہيں موجودہ حالات ميں ہميں بحیثیت قوم اصلاح کی ضرورت ہے افراد سے معاشرہ بنتا اگر افراد اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوں تو معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے ہم قوم نہيں ايک بےہنگم ہجوم ہيں ہميں انفرادی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ نجم سيٹھی کی چڑيا حامد مير کی بے پر کی اطلاعات اور عاصمہ جہانگير بے راہروی ہماری جزبہ حب الوطنی کو متززل نہ کر سکے
باتیں معقول اس وقت اچھی لگیں گی جب حق پرستی نہ سہی قوم و ملک کا غم بھی ساتھ ہو برخود الگ اور ذہنی غلاموں اور بیرونی عینک لگائے لوگوں کے لیے یہ باتیں غیر معقول ہیں ۔ ان کے لینے کے پیمانے اور ہیں اور دینے کے اور ۔ ان کے نزدیک یورپ‘ امریکہ’ ہند‘ روس‘ چین میں ایک قوم رہتی ہے اور پاکستان میں کئی قومیں رہتی ہیں ۔ ان سے عقل کی معقولیت کی توقع فضول ہے ۔ قرآن کی دعوت عام کیجئے لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کی غلامی قبول کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی تلقین کرتے رہئے۔
محترمہ نغمہ حبیب صاحبہ!
آپکا کالم پڑھا اور بڑا مزا آیا ۔ میں آپ کے ایک ایک لفظ سے اتفاق کرتاہوں ۔ ایک دوسرے کو پرداشت نہ کرنے کا معاملہ بڑا خطرناک ہے ۔ مذکورہ کردار بلاشبہ قابلِ مذمت ہے ۔ اللہ تعالی آپ کو اور ہمت دے اور آپ اسی طرح حق اور سچ کا کلمہ بلند کرتی رہیں
خیر اندیش، چودھری رحمت علی، الریاض، سعودی عرب
Respected Madam!I appreciate your article on memo gate published on the last day of 2011. I admit that many human right activists and media anchors are involve in demoralizing the image of Pakistan Army to please their agents who have assigned them
this duty. Such people are apparently Pakistani but their minds and thoughts are against Pakistan’s interests. Unluckily,literacy rate of our country is very low and our People can easily be misguided and can also be used against the country’s interests. They have access to all such organizations, groups, and gangs who are engaged in anti Pakistani activities. Asma Jahangir has no religion. She has always spoken against Islam and Pakistan. Pakistan and Islam are two inseparable identities while such enemies are trying to draw line between Islam and Pakistan. We should discourage such people. We should respect our Army who has made our survival possible at the expense of their own. Pakistan Army is the top rank Army in the world and their moral cannot be downed merely by the remarks of such people. Pak Army Zinda and Pakistan Payanda Baad
Pakistan Army is the only balanced, disciplined and well organised / well lead organisation and asset of pakistan. Why it is still well organised because it is run by itself and not by Government. Had it been run by the Government then it would have been just like Pakistan Steel Mill, PIA and like other Government organisations. And all those who do not have any knowledge about functioning of Pakistan Army, they start commenting on international media, not knowing that by this way they are actually contributing against Pakistan. And I am still surprised that how people tolerate them
صحافیوں اور میڈیا کے حوالے سے آپ کے خیالات سے سو فی صد اتفاق کیا جاسکتا ہے کیوں کہ آج کل میڈیا مکمل طور پر اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ آپ درست فرماتی ہیں کہ ہر اینکرپرسن خود کو عقل کُل تسلیم کرنے لگا ہے اور بعض اینکرپرسن تو باقاعدہ طور پر مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ایک اینکر پرسن کو غیرجانب داری سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنا چاہئیں نہ کہ وہ بلائے گئے مہمانوں کو زچ کرتا رہے ۔ اینکرپرسن کو پورا جواب سننا چاہئے اور اگر وہ اس کے مزاج کے برعکس ہو تو فیصلہ ناظرین پر چھوڑ دینا چاہئے لیکن عام طور پر اینکر پرسن کو جو جواب پسند نہ آئے وہ اس پر اس طرح جرح کرنے لگتا؍لگتی ہے جیسے ان کے درمیان مقابلہ ہو۔
پاکستان کے بے لگام میڈیا کے کچھ فوائد بھی ہیں لیکن اس کے نقصانات بھی بہت ہیں۔ میڈیا کے لوگ ہمیشہ نان ایشو کو ایشو بنانے میں لگے رہتے ہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے نیوز چینل اور اپنی ذات کی تشہیر کے علاوہ اپنے ویور میں اضافہ کرنا مقصود ہوتاہے۔ اور جب ان اینکرپرسن کو کوئی اور تازہ موضوع ملتا ہے تو پھر پرانے موضوع کو یہ بھول جاتے ہیں، خواہ اس کا تعلق ملک و قوم کی سلامتی سے کیوں نہ ہو۔ بریکنگ نیوز اور زیادہ سے زیادہ ویور کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نیوز چینلز اور اینکر پرسن ہر طرح کی حدود پار کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جب تک میڈیا کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق نہیں بنایا جاتا، اس وقت اس کا کردار شفاف اور مثبت نہیں ہوسکتا اور قوم کو اس کی وجہ سے ذہنی خلجان سے نجات نہیں مل سکتی۔
جہاں تک پاک فوج پر تنقید کا سوال ہے تو ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ملک کی حفاظت کا واحد منظم ادارہ ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض جرنیلوں کی ناپسندیدہ پالیسیوں کی وجہ سے اس ادارے پر تنقید کے در وا ہوئے ہیں۔ اگر پاک فوج اپنی حدود میں رہے اور اپنی تمام تر توجہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر مرکوز رکھے تو اس پر کوئی تنقید نہیں کرے گا لیکن اگر یہ ملک کے سول معاملات میں مداخلت کرے اور جمہوری حکومتوں کو ڈکٹیشن دیتی رہے تو ظاہر ہے یہ اس کا کام نہیں ہے، اس لیے اس پر تنقید کی جاتی رہے گی۔ موجودہ حالات میں امریکا کی جنگ میں پاک فوج نے جو کردار ادا کیا ہے، اس پر ہر محب وطن کو اعتراض ہے۔ امریکی ایماء پر اپنے لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن اور جب امریکا یا نیٹو پاکستان کی سرحدوں کو پامال کرتا ہے تو اس پر خاموشی، اس کا یہ عمل عوام کے ذہنوں میں بے شمار سوالات کو پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے پوری دنیا ہم پر انگلی اٹھاتی ہے۔ ہمیں دو ٹوک انداز میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اگر امریکا کی جنگ ہمارے مفاد میں ہے تو ہمیں اسے پورے دل و جان سے لڑنا چاہئے لیکن اگر یہ ہمارے ملکی مفادات کے خلاف ہے تو ہمیں کسی لگی لپٹے بغیر امریکا کو کہنا چاہئے کہ ہم محض ڈالروں کے عوض اپنے ملک و قوم کی سلامتی کو داؤ پر نہیں لگاسکتے۔ ہمارے مفادات اور آپ کے مفادات یکساں نہیں ہیں، اس لیے ہم اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی اپنی پالیسیاں بنائیں گے۔ ہمیں نہ امریکا کو ائیربیس دینے چاہئیں اور نہ ہی نیٹو کے لیے سپلائی لائن دینا چاہئے۔ اور جب ملک و قوم کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا چاہئے۔
بالکل ٹھیک۔یہ اینکر خواتین و حضرات اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور پاکستان کے مفادات کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔عاصمہ جہانگیر کو چاہیے کہ آخری عمر میں ہی قرآن و سنت کا مطالعہ کر لیں۔
Happy new year, a gift from a writer to the Nation’s all those people who have little knowledge of the things and access to the raw materials through internet and especially our immature media anchors who just to please their bosses and add sizzle in their news are all out to cut the throat of country men to earn some few quick buck. My regards to all those who are working silently to serve their country and with out any reward, Allah will help them in their mission and pave the road for them, Pakistan Zindabad
What ever is said in this atrticle is 100% true and correct as Hamid Mir, Asma Jehangir and others like them are sponsored by the enemies of Pakistan and its institutions. Probably the followers of Mirza Qadyani with a dedicated cause to malign Pakistan Army تھوڑا کہے بہت سمجھے
پاکستان زندہ باد، افواجِ پاکستان پائندہ باد
نجم سیٹھی، حامد میر اور عاصمہ جہانگیر کو صرف اور صرف اپنی دولت اور شہرت سے غرض ہے۔ان کو کیا پتہ ملک کیا ہوتا ہے ان کو سستی شہرت جہاں سے بھی ملے چاہیئے۔بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے “شاباش” پاکستان زندہ باد اور افواجِ پاکستان پائندہ باد